شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وفاقی سطح پر اتنی متنوع اتحادی حکومت بنی ہے۔ قابلِ ذکر پارٹیوں میں تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کو نکال کے باقی سب کے سب حکومت میں شامل ہیں۔ سیکولر، مذہبی، معتدل، قوم پرست اور علاقائی پارٹیاں سب ایک ہی صف میں کھڑی ہیں۔
اس اتحادی حکومت کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے جس کی یہ خود دعوے دار بھی ہے کہ اس کے لوگ ’’تجربہ کار‘‘ ہیں۔ اس دعوے میں حقیقت بھی ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے کئی بار اس ملک پر حکم رانی کرچکے ہیں۔ ساتھ میں بالترتیب سندھ اور پنجاب میں اکثر و بیشتر ان کی حکم رانی یا بادشاہت چلتی آرہی ہے۔
اس طرح ایم کیو ایم اور جمعیت العلمائے اسلام بھی کسی نہ کسی صورت تقریباً ہر حکومت میں شامل رہی ہیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ واقعی یہ گھاگ پارٹیوں سے بنی حکومت ہے…… جو تجربہ کار تو ہے ہی، مگر ایک مہینے کی حکم رانی نے اس تجربہ کاری کی ملمع کاری کو اُتار دیا ہے۔
اگرچہ ایک مہینے کی کارکردگی پر انہیں تمام تر خرابی کا ذمے دار تو نہیں ٹھہرایا جاسکتا…… لیکن جیسے کہ عرض کیا گیا کہ چوں کہ موجودہ حکم ران جو عشروں سے اس ملک میں پارلیمانی سیاست کا حصہ رہے ہیں، ان سے بلاشبہ عوام یہ توقع رکھتے تھے کہ یہ آئیں گے، تو حالات بدل جائیں گے…… جیسا کہ ان سب کا نعرہ اور وعدہ تھا کہ ’’ملک بچانا ہے، تو عمران خان کو ہٹانا ہے۔‘‘
اب جب ’’رجیم چینج‘‘ ہوئی اور ان کو دوست ممالک سے کما حقہ ’’درہم و ریال ‘‘ ملے اور نہ ابھی تک عالمی اداروں سے خاطر خواہ ’’ڈالروں‘‘ کا بندوبست ہی کیا گیا، تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
ان تجربہ کاروں کے آتے ہی بجلی ایسے غایب ہوگئی جیسے پاکستان میں کبھی تھی ہی نہیں۔ اس کے لیے تجربہ کاروں نے یہ بہانہ بنایا کہ ’’عمران سرکار کی غلط پالسیوں کی بدولت ایسا ہوا ہے۔‘‘ یہ تاویل عوام کے ذہن کو اپیل نہیں کر رہی۔ کیوں کہ عمران سرکار کی پالیسیاں ٹھیک تھیں یا غلط…… اس کے باوجود ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی دستیاب تھی۔ اگر کسی علاقے میں جاتی بھی تھی، تو اتنی بری حالت نہیں تھی…… جو آج کل ہے کہ ملک کے اہم شہروں تک میں گھنٹوں گھنٹوں بجلی غایب رہتی ہے۔
قارئین، دو تین دن پہلے وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے…… جس میں لگائے گئے نئے ٹیکسوں کا اندازہ آپ خود لگا لیجیے۔ کیوں کہ راقم خود کو اعداد و شمار کے علم میں نالایق سمجھتا ہے۔ پھر یہ بھی سوچیں کہ ان ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوگا؟
اب اگر وہی روایتی حکم رانی ہو کہ بس سارا بوجھ عوام پر ڈالو اور مراعات یافتہ طبقہ بالفاظِ دیگر اشرافیہ کی جھولی بھرو، تو پھر ایسی تجربہ کاری کا کیا کرنا ہے؟ مثلاً بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل وزیرِ اعظم کی سفارش پر صدرِ مملکت نے اعلا عدلیہ کے محترم ججوں کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کی منظوری دی۔ عوام کو معلوم ہے کہ اعلا عدلیہ کے معزز منصفین میں سے کسی ایک کی بھی تنخواہ 6 لاکھ ماہانہ سے کم نہیں۔ اب ایسے میں جس کی ماہانہ تنخواہ 30 ہزار روپے ہے، اس کی تنخواہ میں بھی 15 فی صد اضافہ اور جس کی چھے لاکھ ہے، اس میں 10 فی صد۔ اس 15 اور 10 فی صد کا موازنہ ممکن ہی نہیں۔ کیوں کہ یہ 10 فی صد اضافہ 30 ہزارہ ماہانہ لینے والے کے 15 فی صد اضافے سے اتنا بڑا ہے…… جتنا اونٹ مرغی سے بڑا ہے۔
اس نکتے سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ تجربہ کار حکم ران کس (عوام) کو چونا لگا رہے ہیں…… اور کس (خواص) کو مکھن!
دنیا کا کوئی بھی ملک اتنی واضح خلیج یا اتنی بڑی معاشی تفریق کے ساتھ چل نہیں سکتا…… مگر نجانے پاکستان میں کیا خوبی ہے کہ ابھی مَیں پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ ملک ایسا ہی تھا اور اب بھی ویسا ہی چل رہا ہے۔
اب دیکھیں ناں! یہ کام تو واقعی کوئی تجربہ کار ہی کرسکتا ہے کہ مبینہ طور پر اربوں روپے کرپشن میں ملوث ملزم ہی ریاست کا سربراہ بن جائے۔
اب یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ ملزم کے کیس میں تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان اور مبینہ مستند گواہ مقصود چپڑاسی ایک ہی مہینے میں ایک طرح فوت ہوجائیں؟
لگتا ہے تجربہ کرنے والے اس بار بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ جن نام نہاد تجربہ کاروں کو حالات سدھارنے کے لیے لایا گیا تھا، ان کی تجربہ کاری فی الحال اپنے کیس ختم کرنے تک کارگر ہے۔ کیوں کہ ملک کی حالت تو مزید بگڑ رہی ہے…… اور اگر یہی رفتار رہی، تو خاکم بدہن کوئی بڑا بحران پیش آسکتا ہے…… جس میں تجربہ کار اور اناڑی سبھی متاثر ہوں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔