سوشل میڈیا اور ہمارے رویے

مسجدِ نبویؐ میں پیش آنے والا واقعہ سیاسی، سماجی، اخلاقی…… المختصر ہر حوالے سے انتہائی افسوس ناک ہے۔
جب ہم گھر سے باہر ہوتے ہیں، تو اپنے والدین اور خاندان کی تربیت کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ملک سے باہر ہوتے ہیں، تو ہمارا برتاو انفرادی نہیں ہوتا…… بلکہ پورے ملک کی سفارت کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو مکمل خود مختار ہو۔ بہت سارے حوالوں سے ہم ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ہمارا باہمی تعلق مفید بنیادوں پر تب استوار ہوتا ہے۔ جب ہمارے ذہنوں میں ایک دوسرے کے بارے میں ایک اچھی رائے قایم ہو، جب ہم بیرونِ ملک کسی بھی قسم کی بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو پوری دنیا کی نظریں ہماری طرف اُٹھ جاتی ہیں اور ملک کے "Soft Image” بنانے کے لیے کی گئی تمام کاوشیں یک مشت نذرِ خاک ہو جاتی ہیں۔
سماجی حوالے سے اگر دیکھا جائے، تو ہمارا برتاو صرف ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتا…… بلکہ یہ اس پورے سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے…… جس کے ہم افراد ہوتے ہیں۔
ارسطو نے بجا کہا ہے کہ ’’انسان ایک سماجی حیوان ہے۔‘‘ کیوں کہ ہمارا وجود سماج کا مرہونِ منت ہے اور ہماری شخصیت کی لڑی پرونے میں معاشرے کا ایک فعال کردار ہوتا ہے۔ فرد، سماج کی اکائی ہے اور افراد گویا ایک متحرک سماج ہوتے ہیں۔ مدینہ میں ہنگامہ کھڑا کرنے والوں نے ایک بار پھر دنیا کو دکھا دیا کہ ہم سماجی لحاظ سے کتنے ’’تہذیب یافتہ‘‘ ہیں۔
اخلاقی پہلو کی اگر بات کی جائے، تو ایک شائستہ شخص کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح ہجوم میں اپنے سیاسی مخالفین پر آوازے کسے۔ پھر اگر ہم اپنے ملک سے باہر ہوں، تو ہم پر مزید ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ اچھے اخلاق اور تمیز کا مظاہرہ کریں۔ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تقدس کا لحاظ تو غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔ مسلمان تو وہاں کی حدود کو پامال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے…… لیکن اس سب کچھ کے باوجود ہم نے دیکھ لیا کہ دیس کے لوگوں نے کس قدر بے حیائی کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کی آبرو پر دھبا لگا دیا۔
مدینہ ایک بین الاقوامی شہر ہے…… جہاں پوری دنیا اور خاص طور پر اسلامی دنیا کے لوگ ہر وقت ایک کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں طوفانِ بدتمیزی برپا کرکے ہم وطنوں نے اپنا اور اپنی قوم کا بہت برا تعارف کرایااور جو رہی سہی کسر تھی وہ میڈیا نے پورا کر لی۔
جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا…… لیکن اگر ہم اس کا ذرا سا بھی اِزالہ کرنا چاہیں، تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اس واقعے کے محرکات پر غور کریں…… اور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی اس قسم کے ہنگاموں کا لازمی کردار تو نہیں ہیں……!
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے…… ہم مجموعی طور پر انتہا پسند، جذباتی اور غیر جمہوری واقع ہوئے ہیں۔ ہماری روزمرہ سرگرمیاں ہمارے اس مزاج کی عکاسی کرتی رہتی ہیں۔ ایک عرصے سے ہمارے ہاں نوجوان طبقے کی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ’’سوشل میڈیا‘‘ ہے۔ کتاب سے رشتہ چوں کہ نہ ہونے کے برابر ہے، نتیجتاً موثر تنقیدی نقطۂ نظر کی شدید قلت اور سطحیت کی فراوانی ہے۔ لوگوں کی ذہن سازی میں ایک بڑا کردار سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر موجود لکھاریوں اور ولاگرز کا ہے۔ ان دو ذرایع کا اگر مشاہدہ کیا جائے، تو بہت ہی کم صارفین ایسے ہیں جو غیر متعصب اور اس لیے صحیح معنوں میں قابلِ اعتبار ہیں۔ اکثر نے اپنے اپنے سیاسی، مذہبی اور نظریاتی خدا منتخب کیے ہوئے ہیں…… جن کی بندگی میں نہ صرف خود ہمہ وقت مگن رہتے ہیں بلکہ ان کے حق میں گم راہ کن پروپیگنڈا کرکے دوسروں کو بھی ان ہی کے ذہنی غلام بنانے پر تلے رہتے ہیں۔
اس طرح علمی مکالمے کا شدید فقدان ہے۔ اختلاف رائے کو فطرت نہیں…… بلکہ طبلِ جنگ سمجھا جاتا ہے۔ جو کسی قدر صاحب علم ہیں…… وہ یا تو مکمل خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوتے ہیں اور یا وہ بھی خود کو عقلِ کل سمجھ کر اس قدر قطعی اور متکبرانہ رویہ اپنائے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ اختلاف یا مکالمہ کرنا گویا پتھر کو آواز دینے کے مترادف ہوتا ہے۔
ایسے لوگ جو غیر جانب داری سے صرف سچ کا پرچار کرتے ہیں، آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اپنے مخصوص مکتبِ فکر کو آفاقی سچ جاننے اور کنویں کے مینڈک بنے رہنے کا لازمی نتیجہ انتہا پسندی، فکری بانجھ پن اور جذباتیت کے فروغ کے سوا اور کیا نکل سکتا ہے؟ ذہنی غلامی اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ اگر ایک گروہ میں سے کوئی تارے توڑ کر لائے، تو بھی دوسرا گروہ تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اپنے گروہ کا کوئی فرد انتہائی غلط کام کر بیٹھے، تو بھی اس کے دفاع میں اس قدر بے سر و پا اور مضحکہ خیز شواہد پیش کیے جاتے ہیں کہ عقل شرما جائے۔ نفرتوں کا بازار گرم ہے۔ لوگ گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور ہر شخص نے قسم کھائی ہے کہ اپنے اوپر لگائے ہوئے ٹھپے کا اس طرح دفاع کرنا ہے…… جیسے یہ اس کے لیے بقا و فنا کا معاملہ ہو۔
موجودہ واقعے کے پس منظر میں کیے گئے تبصروں کو اگر بغور دیکھا جائے، تو اصلاح کی کوشش کی بجائے سیاسی ’’پوائنٹ سکورنگ‘‘ کا ایسا رویہ اپنا گیا ہے…… جس سے انتہا پسندی، بد تہذیبی اور گروہ بندی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
اس واقعے کا الزام کسی ایک جماعت پر لگانا بالکل درست نہیں۔ یہ ہماری مجموعی نفسیات اور سماجی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس سے پہلے یہی حرکت نون لیگیوں نے کی تھی اور مریم نواز نے اس کو سیاسی رنگ دے کر ایک ٹویٹ بھی فرمایا تھا۔ اسی طرح اپنے ملک اور دنیا کے اور شہروں میں ہمارے رویے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اصلاح کی فکر کرنے کی بجائے اعتراضات کی توپ صرف ایک جماعت پر مرکوز کر کے سماجی تربیت کی ضرورت کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک رویہ ان انصافیوں کا ہے جو اس بد تہذیبی کے لیے جواز گھڑ رہے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ’’سوشل میڈیا‘‘ پر کی گئی ہماری کوئی بات ہوا میں تحلیل نہیں ہو جاتی…… بلکہ ہزاروں افراد کے شعور اور لا شعور پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔
دانشوروں کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ مخصوص گروہ کے آلہ کار بن کر انتہا پسندی کی پہلے سے موجود آگ کو مزید تو بھڑکا نہیں رہے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ سیاسی الزام تراشیوں سے ہٹ کر ادب، فلسفہ، سائنس، عُمرانیات وغیرہ جیسے بے شمار موضوعات بھی ہیں…… جن کو زیرِ بحث لانا انتہائی ضروری ہے۔
افراد جمہوری، امن پسند اور تہذیب یافتہ ہوں، تو ممکن ہی نہیں کہ ان پر کوئی ڈکٹیٹر، شر پسند یا کوئی بد تہذیب مسلط ہو۔ جیسی قوم ہوتی ہے…… ویسے ہی اس کے حکم ران ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس صورتِ حال کی ذمے داری دوسرے عوامل پر ڈال دیں…… ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ انفرادی طور پر اصلاح ہو جائے، تو اجتماعی طور پر خود بخود سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
’’آف لائن‘‘ زندگی میں بھی اپنے رویوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے مکالموں کے موضوعات عموماً کیا ہوتے ہیں……اور ان سے متعلق ہمارے موقف کی بنیاد کیا ہے؟ ایک چیز ایسی ہے جس کو اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کا تھوڑا سا حصہ بھی وقف کر دیں، تو ہمارے بے شمار مسایل اس طرح مٹ جائیں گے گویا کہ کبھی تھے ہی نہیں۔ میرا اشارہ ہماری ہی تربیت اور آگاہی کے لیے لکھی گئی دنیا جہاں کی رنگ برنگی کتابوں کی طرف ہے۔ کتاب، جو ہماری نظریاتی بنیادوں کو جھنجھوڑتی رہتی ہے…… اور ہم روز کچھ نیا سیکھنے اور کچھ بہتر بننے کے خوب صورت سفر پر رواں دواں رہتے ہیں۔ بقول اقبالؔ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے