پاکستان میں سیاسی درجۂ حرارت اور گہما گہمی عروج پر ہے۔ کوئی چھپ کر ملاقاتیں کر رہا ہے، کوئی کھل کر عوامی نمایندگان سے ملاقاتیں کر رہا ہے، تو بعض گروپوں کی صورت میں دعوتیں اُڑا رہے ہیں۔ اس سیاسی ہل چل کا سہرا پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان صاحب کے سر ہے۔ یہ تو اللہ بہتر جاتا ہے کہ ان ملاقاتوں اور دعوتوں میں یہ لوگ کیا وعدے وعید کرتے ہیں اور اِن وعدوں کو پورا کرنے میں سچے بھی ہیں کہ نہیں؟
پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان پہلے دن سے تحریکِ انصاف اور عمران خان کے خلاف میدان میں ہیں اور وہ حکومت کو بہ ہر صورت گھر بھیجنا چاہتے ہیں…… جب کہ باقی اتحادی مولانا کی ہاں میں ہاں ملائے ہوئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اگرچہ بعض موقعوں پر اُن کا ساتھ نہیں دیا…… مگر مولانا شاباش کے لایق ہیں کہ اُنہوں نے آج تک اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
اب مولانا فضل الرحمان صاحب نے ایک بار پھر کھڑے پانی میں پتھر پھینک دیا ہے اور اس میں لہریں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف کے اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، جی ڈی اے، مسلم لیگ قاف اور تحریکِ انصاف پنجاب کے باغی گروپ (جہانگیر ترین گروپ) سے ملاقاتوں پر ملاقاتیں جاری ہیں…… جب کہ اپوزیشن کا یہ بھی دعوا ہے کہ دس حکومتی ارکان بھی اُن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
میرے خیال میں پی ڈی ایم (اپوزیشن) کی یہ بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آرہی۔ کیوں کہ حزبِ اختلاف خود کسی بھی ایجنڈے پر متفق نظر نہیں آ رہی…… نہ اُن کے ساتھ ایسا کوئی لایحۂ عمل ہی ہے کہ حکومت کو رخصت کرنے کے بعد اُس پر عمل پیرا ہو۔
حکومت کے اتحادی مسلم لیگ (قاف) اپوزیشن کو کیا جواب دے گی؟ مسلم لیگ قاف کے بڑے چوہدری برادران خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدمِ اتحاد کی کامیابی اور حکومت کو گھر بھیجنے کی صورت میں اُن کو کیا ملنے والا ہے…… یا کیا ملے گا؟ کیوں کہ اُن کا مطمحِ نظر ریاست یا عوام نہیں…… بلکہ ذاتی مفادات ہے۔ اور وہ پورے بھی ہو رہے ہیں، تو وہ کیوں کر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے؟
مسلم لیگ (قاف) یہی کَہ سکتی ہے کہ اُنہیں سوچ بچار اور ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے لیے وقت چاہیے۔
اس طرح متحدہ قومی موومنٹ کے بڑوں کو بھی علم ہے کہ حکومت کے ساتھ بے وفائی کرنے اور حزبِ اختلاف کا ساتھ دینے میں اُن کا کتنا فایدہ ہے؟ اس لیے وہ بھی اپوزیشن کو واضح جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں اور بس ملاقاتوں ہی میں وقت گزار رہے ہیں۔
حکومت کی اتحادی ’’گرینڈ ڈیموکریٹک الاینس‘‘ (جی ڈے اے) بھی حکومت سے الگ ہونے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کے حق میں نہیں۔ کیوں کہ اپوزیشن کا ساتھ دینے میں اُن کے ذاتی مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اُن کی بات ملاقاتوں تک ہی محدود رہے گی۔
قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان اختلافات ہیں…… لیکن وہ خود کئی بار کَہ چکے ہیں کہ وہ تحریکِ انصاف کا حصہ تھے اور رہیں گے۔ جہانگیر ترین گروپ کا آپس میں اور اپوزیشن سے ملاقاتوں کا مقصد صرف اپنے آپ کو منوانا اور ذاتی مفادات کا حصول ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف چھوڑنے والوں کو اپنی اپنی پارٹیوں میں جگہ دے پائیں گے؟ کیا وہ اپنے پرانے ساتھیوں پر تحریکِ انصاف سے آنے والوں کو ترجیح دیں گے؟
اور اگر دونوں پارٹیاں تحریکِ انصاف سے آنے والوں کے ساتھ اگلے الیکشن میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کریں گی، تو اُن کے مخلص اور پرانے رہنما کیا کریں گے؟
23 فروری کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کسی بھی واضح لایحۂ عمل پر متفق نہ ہوسکے۔ گو کہ اُنہوں نے اجلاس کے بعد وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلامیہ جاری کیا…… جب کہ مولانا کی مسلم لیگ (قاف) سے ہونے والی ملاقات بھی بے نتیجہ رہی۔
قارئین! حزبِ اختلاف کی ملاقاتیں اُس وقت بار آور ثابت ہوسکتی ہیں کہ حزبِ اختلاف وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کر دے۔ اس صورت میں حکومت کے اتحادی اور جہانگیر ترین گروپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ عملی قدم اُٹھانے کا وقت آگیا ہے…… مگر پھر بھی اپوزیشن کی کامیابی یقینی نہیں۔
ایک بات واضح ہے کہ حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی اقتدار لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ آنے والے قومی الیکشن سے پہلے اُن کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت فارغ ہو اور نئے الیکشن ہوجائیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن واقعی چاہتی ہے کہ حکومت گھر چلی جائے، تو اس کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے، لانگ مارچ، عدمِ اعتماد، ملاقاتوں اور اتنی مشقت کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اپوزیشن کو چاہیے کہ ملاقاتوں، تحریکِ عدمِ اعتماد اور لانگ مارچ کی بجائے اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں، تو نئے الیکشن کل ہوجائیں گے…… مگر وقت سے پہلے حکومت ختم کرکے اپوزیشن تحریکِ انصاف کو سیاسی شہید کے طور پر بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔ اپوزیشن کے اتنے پاپڑ بیلنے کا مقصد حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں سے روکنا اور آنے والے قومی الیکشن میں تحریکِ انصاف کو ناکام دیکھنا ہے…… مگر اپوزیشن کی یہ مشق بھی اُن کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے!
کالم شایع ہونے تک پیپلز پارٹی نے سندھ سے لانگ مارچ شروع کیا ہوگا۔ اس کے کیا نتایج نکلیں گے…… یہ تو وقت آنے ہی پر معلوم ہوگا۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔