آج کی شام ڈاکٹر شاہد اقبال بورے والا کے نام

یوں تو بورے والا میں ڈھیر سارے ڈاکٹر ہیں،ڈھیر سارے شاہد ہیں، ڈھیر سارے اقبال ہیں…… مگر ڈاکٹر شاہد اقبال ایک ہی ہے۔ اڈہ ظہیر نگر کے قریب چک نمبر541/ ای بی میں ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ پیشے کے لحاظ سے پریکٹسنگ ڈاکٹر ہیں۔ آج کل ان کے پاس انتظامی امور کا شعبہ ہے اور میاں چنوں میں ایم ایس کا تعین ہوا ہے۔ پہاڑوں سے عشق ان کی گھٹی میں شامل ہے ۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک دفعہ فلم سٹار ’’منا‘‘ سے کسی نے سوال کیا کہ اگر آپ ایکٹر نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ انہوں نے مختصر جواب دیا تھا: ’’ٹریکٹر!‘‘
’’ٹریکٹر‘‘ اور ’’ٹریکر‘‘ میں فرق تو صرف حرف ’’ٹ‘‘ کا ہے…… مگر ٹریکر وہ ہوتا ہے جو پہاڑوں پر کئی کئی دن پیدل چل کر ایک خاص مقام سے کسی دوسرے خاص مقام پر پہنچے۔ رستے میں کٹھن موسمی حالات، بارش، برف، نالہ، گھاٹی، چڑھائی، اترائی، بولڈر، کریوس، اور کئی ایک دوسرے تلخ حالات کو جھیل کر ان کا مقابلہ کرے۔
ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر ایک ٹریکر ہیں۔ ڈھیر سارے مشکل ٹریک کرچکے ہیں۔ باقی ان کی ’’وِش لسٹ‘‘ پر ہیں۔ ’’لپکے لا‘‘ کا انتہائی دشوار ٹریک کرکے آئے ہیں…… جہاں پر ان کے ساتھ ایک بہت ناخوش گوار جان لیوا واقعہ پیش آیا جب وہ ایک تقریباً پچاس فٹ گہری کریوس (برف کی دراڑ) میں 15 فٹ نیچے تک لٹک گئے تھے۔ روپ اَپ ہونے کی وجہ سے اس کے اندر نہیں گرے، ورنہ اس سے نکلنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا کام مریضوں کو دوا دے کر صحت یاب کرنے کی کوشش ہے…… مگر خود دل کے مریض ہیں…… اور اُس دل کو پہاڑوں پر جانے کا عارضہ لاحق ہے۔ جسم یہاں بورے والا سے میاں چنوں تک کی سڑکوں کا مسافر ہوتا ہے، تو دل پہاڑوں کی وادیوں کا……! جتنا زیادہ پہاڑوں کے اندر تک……پہاڑوں کے اوپر تک جاتے ہیں…… دل اُتنا ہی خوش اور اچھا ہوجاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ شاید کسی پچھلے جنم میں پہاڑوں کے باسی تھے۔پہاڑ ہی ان کا مسکن تھا۔ تجربے کے طور پر ان کے سامنے پہاڑوں کی بات کریں اور پھر دیکھیں ان کے چہرے کا رنگ……کیسے لال و لال ہو کر کھل اٹھتا ہے……!
دیارِ یار کی حسیں رُتوں کی بات کرو
میرے سامنے صرف پہاڑوں کی بات کرو
زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ہیں…… مگر جب پہاڑوں میں، وادیوں میں، سبزہ زاروں میں قدم رنجہ فرماتے ہیں، تو پندرہ سال کی چلبل عمریا کے نٹ کھٹ جوان کی مانند چہکتے دکھتے ہیں۔ یہ پہاڑوں کے دل دادہ ہیں اور پہاڑ ان پر شیدائی ہیں۔ کہتے ہیں کہ میری زندگی کے وہ لمحات جو پہاڑوں کی سنگت میں بسر ہوئے……سب سے بہتر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے تین ہونہار بیٹے ہیں۔ سب سے چھوٹا ابھی طالب علم ہے۔منجلا ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور بڑا ’’علی فالکن ایڈونچر کلب‘‘ کا مالک ہے۔ والدِ محترم کے حسیں خواب، ان کے عشق کی آبیاری میں مگن…… دنیا کو یہ دکھانے کی کوششوں میں مصروف کہ پہاڑوں میں آخر وہ کیا حسن ہے جو اس کے ایک ایک جلوے کو دیکھنے میرے والدِ محترم کی طرح اور لوگ بھی دنیا بھر سے کھنچے چلے آتے ہیں۔
قارئین، پہاڑ…… جو اللہ بزرگ وبرتر کی کاریگری کا منھ بولتا ثبوت ہیں…… پہاڑ جو نفاست اور پاکیزگی کا نام ہیں…… یہ پھولوں سے لدی وادیاں…… یہ پھلوں سے بھرے گلشن…… خوشبوؤں سے اٹے سبزہ زار…… جھلملاتے، لہلہاتے لم تڑنگے دیودار…… گنگناتے جھرنے……آسمانی بلندیوں سے گرتی آبشاریں…… ناچتے دریا……برف کے سفید محل…… جھومتی پُربہار فصلیں…… حسنِ یوسف کی کہانی ایک طرف……پھوٹتے چشمے بہتے دریاؤں کا پانی اِک طرف۔
ہر ہر سال پہاڑوں کی یاترا کو جاتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو پہاڑوں کا ذکر کرے، یا وہاں سے ہو کر آئے، یا وہاں جانے کی بات کرے، یا پھر وہاں جاتا ہو…… ڈاکٹر صاحب اس کا محبوب ہے۔ پہاڑوں سے پیار کرنے والوں کا جہاں پر سے بھی بلاوا آئے…… سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگے چلے جاتے ہیں۔ پہاڑ ان کی مستی، پہاڑ ان کا نشہ، پہاڑ ان کی سوچ……
یہ پینے والے بہت ہی عجیب ہوتے ہیں
جہاں سے دور یہ خود سے قریب ہوتے ہیں
پینے والے باقی ماندہ جہاں سے دور اور اپنی ذات کے قریب ہوتے ہیں…… مگر پہاڑوں کے شیدائی اپنی ذات سے دور اور پہاڑوں کے قریب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے نعمت کدے کا نام قراقرم ہاؤس رکھا ہوا ہے۔ ارادے ’’کے ٹو‘‘ جتنے بلند ہیں۔ نگاہوں میں ’’براڈ پیک‘‘ جتنی وسعت ہے اور دل ’’راکا پوشی‘‘ جیسا حسیں ہے۔ جب ٹریک کر کے آتے ہیں، تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے، جیسے معشوق کے در پر پڑے عاشق کی حالت…… جیسی معشوق کی گلیوں کے پھیرے لگا لگا کے اس کے سودائی کی ہو جاتی ہے۔ داڑھی بڑھی ہوئی۔ چہرے پر جھریاں، پاؤں میں چھالے، اُڑی اُڑی سی رنگت، بکھرے گیسو، گندے سلوٹ زدہ کپڑے، تھکن سے چور جسم، سیاہ رنگت، برا حال، بانکے دیہاڑے۔
ایک دفعہ ہراموش ویلی کا ٹریک کر کے تنِ تنہا واپس آئے۔ ہم فیصل آباد میں ایک ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ پر گئے تھے۔وہ سیدھا گلگت سے وہاں پہنچے ۔ان کی حالت ایسی ہی ناگفتہ بہ تھی۔میں نے پوچھنے کی جسارت کی کہ ’’سر! آپ نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟‘‘ کہنے لگے :
میرے جیسے بن جاو ٔگے
جب عشق تمہیں ہو جائے گا
دیواروں سے سر ٹکراؤگے
جب عشق تمہیں ہو جائے گا
پہاڑوں سے عشق ذاتِ الٰہیہ سے عشق کا دوسرا نام ہے ۔
اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں تو ڈیوٹی سے پورا انصاف کرتے ہیں۔ بہت شفیق، مخلص اور دیانت دار، اَن تھک محنت کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے سال مسلسل 32 گھنٹے ڈرائیو کرکے باڈگوئی ٹاپ سے بورے والا پہنچے۔ چھوٹے بڑے سب کی عزت کرنا ان کی عادت ہے۔ جیسی مجلس ہو ویسا بن جانا ان کی خوبی ہے۔ زندگی کے بارے میں ان کا فلسفہ مغل بادشاہ بابر سے ملتا جلتا ہے: ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘
زندگی خوب صورت ہے…… اگر آپ کا دل خوب صورت ہے۔ ایک پائی جوڑ کر نہیں رکھتے اور نہ کوئی بڑا بنک بیلنس ہی رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں زندگی وہی ہے جو اچھے اور خوب صورت طریقے سے گزر جائے۔
قارئین، میرا بڑا دل چاہتا تھا کہ ان کی اچیومنٹس لکھوں…… مگر کیا کروں کہ جہاں سے ہماری ’’ٹور ازم‘‘ ختم ہو جاتی ہے۔ وہاں سے ان کی شروع ہوتی ہے۔
’’ٹورازم‘‘ کی دنیا کا سب سے بڑا ٹریک کہ جسے کرنے والے کو ٹور ازم کی دنیا میں ٹور ازم کا حاجی کہا جاتا ہے۔ غونڈوغورو ٹریک کیا ہے۔ اس کے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ بیس کیمپ ٹریک، سنو لی، شمشال ٹریک، کنکورڈیا، لپکے لا، منگ لِک سر اور اس کے علاوہ چھوٹے موٹے ٹریک تو بے شمار کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بیسٹ ایم ایس آف دی ائیر 2018ء اعزاز حاصل کیا اور وزیرِ صحت کی کمیٹی برائے صحت کا حصہ بھی رہے۔
کہاں تک سنوگے، کہاں تک سناؤں
ڈاکٹر صاحب ایک ایسا چھتنار درخت ہیں کہ جس کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں چھوٹے بڑے، امیر غریب، اچھے برے سبھی بیٹھ کر سکون پاتے ہیں، جو خود تو تپتے سورج کی شعاعوں کو روک کر اپنے جسم پر جھیل جاتا ہے…… مگر اپنی چھاؤں میں بیٹھنے والوں کو سکوں، آرام اور آسودگی پہنچاتا ہے۔
کوشش تو بہت کی کہ ان کی شخصیت پر کچھ بہتر لکھ سکوں، مگر بہت سے پہلو اب بھی تشنہ سے محسوس ہو رہے ہیں۔ ڈھیر ساری پرتیں اب بھی پوشیدہ ہیں۔
کہاں تک سنوگے، کہاں تک سناؤں
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔