کل سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز دیکھیں۔ اس کے بعد جہاں کلیجہ منھ کو آیا وہاں بحیثیتِ انسان فخر کا بھی احساس ہوا۔
پہلی ویڈیو کرناٹک کے ایک کالج کی تھی…… جہاں ایک ’’مسکان‘‘ نامی مسلمان لڑکی برقع پہن کر کالج گئی، تو باجپا کے ایک ہجوم پر مشتمل غنڈوں نے باقاعدہ ’’جے شری رام‘‘ کے نعروں کے ساتھ اس معصوم بھولی بھالی ٹین ایجر لڑکی کو تقریباً گھیر لیا۔ تمام غنڈوں کے ہاتھوں میں ڈنڈوں سے لبریز جھنڈے تھے اور وہ صرف ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے ہی نہیں لگا رہے تھے…… بلکہ ’’حجاب اُتارو‘‘ کا مطالبہ نعرے کی شکل میں کر رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ان کو یہ بتایا گیا ہوگا کہ اس طرح یہ نہتی لڑکی خوف زدہ ہو کر حجاب اتار دے گی اور پھر اس خوف زدہ ہرنی کی طرح بھاگتی مسلم لڑکی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر تفنن طبع کا سامان کیا جائے گا…… اور اس سے پورے ہندوستان بھر میں ان ’’باجپائی بدمعاشوں‘‘ کے حو صلے بلند ہوں گے۔ پھر امرتسر سے کنیا کماری تک پورے ہند میں گاؤں گاؤں شہر شہر ایسی ہی حرکات کر کے نہ صرف حجاب کے خلاف مہم چلائی جائے گی…… بلکہ مسلمانوں کو مزید حراساں کیا جائے گا…… لیکن سلام پیش کرتا ہوں مسکان نامی اس دلیر شیرنی کو…… جو ذرا نہ گھبرائی اور بہت جرات سے اس نے اُس ہجوم کا نہ صرف سامنا کیا…… بلکہ ’’جے شری رام‘‘ کے مقابل ’’اﷲ اکبر‘‘ کے نعرے لگائے۔
قارئین، ہم سمجھتے ہیں کہ مسکان نے نہ صرف بھارت کی اقلیتوں…… خاص کر مسلمانوں اور یقینا سیکولر سوچ کے محب الوطن ہندوؤں کو بے شمار حوصلہ دیا۔ مسکان اس لیے بھی انسانیت کی شان بنی کہ اس نے اپنی جان اور عزت کا رسک لیا۔ کیوں کہ اگر اس ہجوم جو کہ مکمل نوجوان لڑکوں پر مشتمل تھا…… میں کوئی بھی مسکان پر باقاعدہ جسمانی طور پر حملہ کرنے کی حماقت کر بیٹھتا، تو پھر تمام ہجوم خود بخود اس میں ملوث ہو جاتا…… اور اس جنونی غنڈوں پر مشتمل ہجوم کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا۔ پتا نہیں پھر یہ بدمعاش مسکان کا کیا حشر کرتے……!
لیکن مسکان نے اپنی جرات اور اعتماد سے ان کے حوصلوں کو پست کر دیا…… اور وہ دھاڑتی ہوئی شیرنی کی طرح مکمل وقار سے کالج کے اندر داخل ہوگئی۔ بقولِ مسکان بہرحال کالج انتظامیہ کہ جو اکثر ہندو سٹاف پر مشتمل ہے…… نے اس کے ساتھ مکمل تعاون کیا…… بلکہ اس کو تسلی بھی دی۔
اس کے علاوہ دوسری ویڈیو جو نظر آئی…… اس میں ایک ہندو صحافی لڑکی ان غنڈوں کی بھرپور مذمت کرتی ہوئی دکھائی دی۔ یہ بھی اس مٹی کی عظیم بیٹی ہی تھی…… جس نے پوری مودی حکومت پر سرعام تُف کی۔ اس ویڈیو میں اس نے خود کو ’’قابلِ فخر ہندو‘‘ کہا…… لیکن ساتھ ہی اس نے بطورِ ہندوستانی اور بطورِ انسان کے نہ صرف مسکان بلکہ حجاب و اسلام کی غیر مشروط حمایت بھی کی۔ ساتھ یہ بھی واضح کہا کہ اگر کسی ہندو کو ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے کا حق ہے، تو پھر کسی مسلمان کو بھی ’’اﷲ اکبر‘‘ کہنے کا اتنا ہی حق ہے۔
اس کے ساتھ اس نے برقع اور حجاب کی بھی مکمل حمایت کی…… اور کرناٹک کی حکومت خاص کر حکومتی جماعت کی خواتین کے نام لے لے کر ان کی مذمت کی۔ اس نے اس ہجوم سمیت بھارت کے تمام بنیاد پرست اور جن سنگھ سوچ کے مالک لوگوں کو بے شرم اور کم ظرف کہا۔ بہرحال اس ویڈیو کی وجہ سے بھارت کے اندر شاید وہ انارکی شروع ہونے والی ہے کہ جو شاید 1947ء میں بھی نہ تھی۔
قارئین، اب مسکان نے بھارت کے تمام مظلوموں کو لا محدود حوصلہ دیا ہے۔ بھارتی سماج میں ’’می ٹو مسکان‘‘ (Me too Muskan) کا ’’ٹرینڈ‘‘ چل پڑا ہے۔ اس کا شاید منطقی نتیجہ وہی نکلنا ہے کہ جس کی خواہش صرف ’’ہندتوا‘‘ کے غنڈے ہی نہیں چاہتے…… بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش کے نام نہاد مجاہدین بھی چاہتے ہیں۔
ہم آزادی کے ان صفحات پر کئی بار یہ تحریر کرچکے ہیں کہ مودی پاکستان، چین یا بنگلہ دیش کے لیے قطعی خطرہ نہیں…… بلکہ یہ چائے بنانے والا احساسِ کم تری کا شکار ایک ذہنی بیمار بذاتِ خود ’’مہاتما گاندھی‘‘ کے ہندوستان کے لیے خطرہ ہے۔
یہ بات صرف ہم ہی نہیں بلکہ بھارت کے اندر سے بے یشمار سیکولر اور انسان دوست اشخاص حتی کہ بے شمار ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والے ہندو بھی کرتے رہے ہیں۔ ان میں صرف سیاست دان ہی نہیں کہ ہم سمجھیں کہ مسلم ووٹ کی طلب کی وجہ سے…… بلکہ بہت سے لوگ سول سوسایٹی کے نمایندے بھی ہیں۔ مثلاً معروف فلم پروڈوسر مہیش بھٹ، معروف صحافی برکھا دت، سابقہ ٹیسٹ کرکٹر کپیل دیو اور سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس تک اس میں شامل ہیں…… بلکہ پچھلے دنوں بھارتی مسلح افواج کے بہت سے سابقہ افسران بشمول سابقہ آرمی چیف نے مودی سرکار کو بذریعہ ایک خط اس حماقت سے آگاہ کیا…… اور یہ واضح کیا کہ ان کی حکومت کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے بھارت اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے مودی سرکار کو فوراً اپنی پالیسوں پر رجوع کرنا ہوگا۔
قارئین، یہاں پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسکان نے صرف جن سنگھ کے ان وحشی غنڈوں کے منھ پر تماچا نہیں مارا…… بلکہ دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کے منھ پر بھی تھوک دیا ہے۔ خاص کر ہمارے عرب بادشاہ جو مودی کو ایوارڈ دیتے پھر رہے ہیں…… وہاں مندروں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ مارکیٹوں میں بھگوان کی مورتیاں رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
ہم اصول کی بنیاد پر مذہبی آزادی کے مخالف نہیں…… لیکن ان حکمرانوں کو کیا اتنی بھی جرات نہیں کہ وہ اس ذہنی مریض چائے فروش کو یہ کہہ سکیں کہ جنابِ والا یہ مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ بھگت سنگھ کا ہند ہے…… یا گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کا ہے؟
کاش! مسلم حکمران اس طرف توجہ دیں اور ان حکمرانوں کے لیے یہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ کوئی مناسب اقدام نہ کرسکے اور مودی کو ہند بشمول کشمیر بارے پالیسیاں بدلنے پر مجبور نہ کرسکے، تو بذاتِ خود ان ممالک میں موجود شدت پسند لوگ مزید طاقتور ہوں گے۔ پھر ان کی اپنی حکومتیں اندرونی خلفشار کا شکار ہو سکتی ہیں۔
قارئین،پاکستان کو تو لازماً پہل کرنا ہوگی…… اور دنیا بھر خاص کر مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور منتخب نمایندوں کو ان حالات سے آگاہ کرنا ہوگا۔
مَیں مکمل دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ مسکان کی یہ ویڈیو شاید اُس تمام مواد اور فایلوں سے زیادہ وزنی ہو کہ جو ہمارے نااہل سفارت کار بغلوں میں لے کر وقت ضایع کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہم بھارتی میڈیا خاص کر سوشل میڈیا کے بھی مشکور ہیں کہ اس کے ایک بہت بڑے حصے نے مسکان کی غیر مشروط حمایت کی ہے…… بلکہ کچھ معروف الیکٹرانک ٹی وی چینلوں نے مسکان کے باقاعدہ انٹرویو کیے اور اس کو حوصلہ دیا ہے۔ ہندوستانی سوشل میڈیا تو مسکان کی حمایت میں اٹا پڑا ہے۔
جس دوسری ویڈیو کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ اسی سلسلہ میں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی گئی اور اس پر لاکھوں لائیک ہزاروں کومنٹ اور ہزاروں شیئر واضح نظر آئے۔
المختصر، جہاں ہم اس واقعہ پر ہندتوا کے غنڈوں، بھارتی سرکار کے انسان دشمن حکمرانوں کی مذمت کرتے ہیں…… وہاں مسلم حکمرانوں کی بھی مذمت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ بھارت کے سیکولر انسان دوست بڑی تعداد میں عوام اور خاص کر ایک دلیر لڑکی مسکان کو سلام پیش کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہم ایک دفعہ پھر بھارتی سرکار کہ جو اس وقت مودی کے خونی پنجوں میں بے بس ہے…… سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ذہنی مریض کا علاج کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسکان کے واقعہ کی وجہ سے قدرت نے بھارت کے ایک عام شہری کو یہ نادر موقع دیا ہے کہ وہ اس ذہنی معذور شخص کے خلاف باہر نکل آئے…… اور اس پر اس حد تک دباؤ ڈالے کہ اگر وہ حکومت سے نہ بھی نکلے، تو کم از کم ان ہندتوا اور باجپا کے غنڈوں کو نکیل تو ڈال سکے۔ گاندھی کے ہند کے لیے یہی بہتر بھی ہے…… اور مناسب بھی۔ وگرنہ دوسری صورت میں ہند کے کونے کونے میں وہ آگ جلنے جارہی ہے…… جو پورے ہندوستان کو جلا کر راکھ کر ڈھیر بنا دے گی۔ یہ بات مودی کو سمجھانا ہوگی۔
قارئین، پہلے ہی ہندوستان میں بے شمار علاحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں۔ کشمیر کو آپ نے جبر کا شکار کیا ہوا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے سکھ بیرونی دنیا میں ’’خالصتان‘‘ کے لیے ریفرنڈم کروا رہے ہیں اور تم بجائے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے قوم کے وارث اور باپ بنتے ہو۔ تم ایک جنونی ہندو دماغ کے محافظ بنے ہوئے ہو۔
قارئین، مَیں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ یہ شخص ملک کا وزیراعظم بنے اور مسکان کے گھر جا کر اس کی جرات کو خراجِ تحسین پیش کرے اور ان بے غیرت غنڈوں کے خلاف مناسب کارروائی کرے۔ وگرنہ مہاتما گاندھی کے جمہوری ہندوستان کی تباہی کو کوئی نہیں روک پائے گا۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔