وکی پیڈیا کے مطابق کلیم عاجزؔ (Kalim Aajiz) ہندوستانی شاعر 14 فروری 2015ء کو جھارکھنڈ میں انتقال کرگئے۔ تلہاڑہ میں آسودۂ خاک ہیں۔
1920ء میں پٹنہ کے موضع تیلہاڑہ میں پیدا ہوئے۔ تیلہاڑہ صوبہ بہار کے نالندہ ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں پرانے زمانے میں بدھ مت کے راہب رہا کرتے تھے ۔ عاجزؔ کوصوفیوں کی خانقاہوں سے بڑی عقیدت تھی، خاص طور پر خانقاہِ سجادیہ ابوالعلائیہ کے شاہ محسن داناپوری سے گہرا لگاؤ تھا۔
پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پھر اسی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری اور بعد ازاں 1956ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’بہار میں اُردو ادب کا ارتقا‘‘ کے عنوان پر لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں شایع بھی ہوا۔ طالبِ علمی سے فراغت کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سی تعلق باقی رہا۔ وہاں شعبۂ اردو میں فیکلٹی ممبر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور بحیثیتِ پروفیسر وظیفہ یاب ہوئے ۔ سُبک دوشی کے بعد حکومتِ بہار کی ’’اُردو مشاورتی کمیٹی‘‘ (Urdu Advisory Committee) کے صدر مقرر ہوئے اور تا دمِ آخر اس پر باقی رہے ۔
اپنی پہلی غزل 17 برس کی عمر میں لکھی اور 1949ء سے مشاعروں میں شرکت شروع کی۔ پہلا دیوان 1976ء میں شایع ہوا جس کی تقریبِ رونمائی اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ’’فخر الدین علی احمد‘‘ کے ہاتھوں ’’وگیان بھون‘‘ میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے متعدد دیوان منظرِ عام پر آئے جن میں ’’جب فصلِ بہاراں آئی تھی‘‘ ، ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘، ’’جب فصل بہار آئی‘‘ اور ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں ڈلاس (امریکہ) سمیت کئی ملکوں میں اُردو کے مشاعروں میں شرکت کی۔
عاجزؔ کا ذیل میں درج کیا جانے والا شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو