ملک میں ان دنوں طاقت ور اور مقتدر حلقے ایک نئے ’’صدارتی نظام‘‘ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض حکومتی رہنماؤں، تجزیہ کاروں اور سابق فوجی افسران کی طرف سے ملک میں صدارتی نظام رایج کرنے کے حق میں دلایل سامنے آرہے ہیں۔ ان حالات میں جب بڑھتے ملکی قرضوں، معاشی بحران، مہنگائی و غربت میں اضافے کی وجہ سے موجودہ پارلیمانی نظام کی ناکامی کا چرچہ زبان زدِ عام ہے، عوامی ردِ عمل کو چیک کیاجا رہا ہے، دیکھا جا رہا ہے کہ عام آدمی صدارتی نظام کے حق میں کیسا ردِ عمل دیتا ہے…… جب کہ اس صورتِ حال کا اگر باریک بینی سے جایزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام میں جہاں اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کو چلنے نہیں دیا…… وہاں سیاست دانوں نے جمہوریت اور سیاست کو عالمی جمہوری اُصولوں کے مطابق چلانے کی بجائے جاگیروں اور کارپوریشنوں کی طرح چلا کر جمہوری نظام کو کم زور کیا۔ فوج کے اقتدار پرست جرنیل سول اُمور میں کھلم کھلا مداخلت کرتے رہے…… اور حکومتیں بنانے اور توڑنے کی سازشیں کرتے رہے، لیکن پارلیمانی جمہوریت اور سیاست دان ان کا راستہ نہ روک سکے۔
اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں منظم ہوتیں اور ان کے اندر بھی جمہوریت ہوتی، تو پارلیمانی نظام مضبوط ہوتا، اور بیوروکریٹس اور جرنیلوں کے لیے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ممکن نہ ہوتا۔
آج پاکستان کا شمار ناکام ترین جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ موجودہ پارلیمانی نظام میں جمہور یعنی عوام کم زور جب کہ سیاسی خاندان مضبوط ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے آج بھی انگریزوں کا پارلیمانی نظام رایج ہے…… جو امریکہ اور برطانیہ کے سامراجی اور حکم ران اشرافیہ کے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتا ہے…… جب کہ عوام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
پارلیمان کی مایوس کن کارکردگی کی بدولت گذشتہ 14 سال سے تسلسل کے ساتھ چلنے والا پارلیمانی جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام رہا ہے۔ وزیروں نے ایوان کو اہمیت دی نہ عوام کو۔ ان 14 سالوں میں ’’ڈیموکریسی‘‘ کو ’’ڈاکو کریسی‘‘ بنا دیا گیا۔ ریکارڈ توڑ غیر ملکی قرضے لے کر آنے والی نسلوں کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا۔ موجودہ پارلیمانی نظام عوام کو بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی، فوری اور سستا انصاف اور امن و امان دینے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی اور محرومی بڑھی اور وہ انتہا پسندی پر مایل ہیں۔ لہٰذا اس ناکام پارلیمانی نظام پر کہا جا رہا ہے کہ اب ’’جمہوری صدارتی نظام‘‘ کو موقع دیا جائے۔
صدارتی نظام، چیک اینڈ بیلنس، عدلیہ کی آزادی، شفاف یک ساں احتساب اور ریاستی اداروں کے استحکام کو یقینی بنائے گا۔ مضبوط اور طاقت ور صدر کی موجودگی میں کسی ریاستی ادارے کو اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔
قارئین، اس بارے میں میڈیا پر بحث شروع ہوچکی ہے۔ تبصرے اور تجزیے شایع ہو رہے ہیں…… جب کہ اگر ملک میں حقیقی جمہوریت کو آزادانہ طور پر پھلنے پھولنے کا موقع دیا جاتا، تو آج ’’پارلیمانی نظام‘‘ ناکارہ اور فرسودہ ہونے کی بجائے فعال اور متحرک ہوتا…… اور ’’صدارتی نظام‘‘ کے تجربے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
اگر ملکی مفاد کو دیکھا جائے، تو صدارتی نظام کی بجائے موجودہ پارلیمانی نظام ہی بہتر ہے۔ کیوں کہ جب کوئی فرعون بنے، ظالم بنے، جابر بنے، تو پارلیمانی قوتیں اس کو منظرسے ہٹا کر قایدِ ایوان کو تبدیل کرسکیں۔
بلاشبہ فرد اگر سلیم العقل، سلیم الفطرت ہوگا، تو وہ وزیرِ اعظم ہو کر بھی بہت کامیاب رہے گا…… اور اگر فاترالعقل ہوگا، تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر ہو کر بھی ملک توڑ دے گا…… اور دو قومی نظریے کو تباہ کرکے ملک کے لیے تباہی و بربادی کا راستہ استوار کرے گا۔
ماضی میں بھی تمام تر اختیارات کے مالک فردِ واحد کے بعض فیصلوں کے اثرات ملکی سلامتی، بقا اور اتحاد و یکجہتی پر پڑے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک شخص کو با اختیار کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کو با اختیار کیا جائے۔ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت نقشِ عالم پر اپنے آزاد اور خود مختار جمہوری وجود کو تسلیم کروانا ہے۔ معاشی خود کفالت حاصل کرنی ہے۔ عام آدمی کی زندگیوں کو اقتصادی خوشحالی سے روشناس کرانا ہے۔
آج ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی مثال دیتے ہوئے بلا امتیاز احتساب کا دعوا تو کیا جاتا ہے…… مگر بدقسمتی سے اپنے چہیتوں کو بچانے کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ اب جب کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے، عوام کو ریلیف دینے اور نظام چلانے میں ناکام نظر آرہی ہے…… ایسے حالات میں درحقیقت صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑ کر اصل مسایل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔
ہمیں صدارتی ادوار کی ترقی کی مثالیں دی جا رہی ہیں…… لیکن شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اسی صدارتی نظام کی بدولت مشرقی پاکستان ہم سے علاحدہ ہوا۔ اسی نظام نے ملک میں شدت پسندی کو فروغ دیا اور اسی نظام کے ایک فیصلے کی مثال ملک میں بدترین دہشت گردی کا باعث بنی…… جس نے اس ملک میں ہزاروں شہریوں کی جانیں لے لیں اور معاشی طور پر ہمیں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا۔
حکم ران یاد رکھیں کہ جب آپ کے وعدے پورے ہوں گے، تو یہ قوم آپ کو بار بار موقع دے گی…… لیکن آپ کی کارکردگی دیکھ کر عوام آپ سے نالاں ہیں…… اور نااہل وزیروں کے محکمے تبدیل کرکے طرزِ حکم رانی اور پارلیمانی نظام میں بہتری کا مطالبہ کررہے ہیں، تاکہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات میسر آسکے۔
ان گھمبیر حالات میں قوم، صدارتی نظام کی تمنا رکھنے والوں کا ساتھ کبھی نہیں دے گی۔ آج قوم اپنے حکمرانوں سے دعوؤں اور وعدوں کی بجائے عملی اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔