’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اس ہوٹل میں ’’کھسروں‘‘ کا داخلہ منع ہے، یہ ریڈ زون ہے۔ اب کھسرے بھی بڑے ہوٹل میں جائیں گے؟ تمہارے کپڑوں میں کیا ہے؟ تم مرد ہو یا عورت……؟‘‘
’’جیولی‘‘ ہمیشہ جہاں بھی جاتی ہے، اپنی سینئر عظمیٰ کے ساتھ ہی جاتی ہے۔ کیوں کہ اُس کو لگتا ہے کہ وہ عظمیٰ کے ساتھ کم از کم ایک عام شہری کی طرح سمجھی جاتی ہے، لیکن اس دن جیولی کو اسلام آباد کے ایک نامور ہوٹل میں کسی میٹنگ میں شرکت کے لیئے اکیلے ہی پہنچنا تھا۔ عظمیٰ چوں کہ شہر کی دوسری جانب سے آرہی تھی، تو اس کو ذرا دیر ہوجانی تھی۔ جیولی ٹیکسی پر متعلقہ ہوٹل پہنچی، مگر اس کو ہوٹل کے قریب ہی پہلی سیکورٹی چیک پوسٹ پر روک لیا گیا اور کہا گیا کہ کھسروں کا ہوٹل میں داخلہ منع ہے اور وہی کچھ کہا گیا جو تحریر کی تمہید میں درج ہے۔
جیولی کو چوں کہ بری طرح سے ہراساں کیا جانے لگا، تو وہ پریشان ہوگئی اور اپنی ساتھی عظمیٰ کا انتظار کرنے لگی کہ وہ آئے اور اس کو اندر لے جائے۔کچھ دیر بعد جب عظمیٰ پہنچی، تو اس کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک روا رکھا گیا اور یہ کہا گیا کہ ’’آپ چلی جائیں یہ نہیں جا سکتا اور اگر آپ کو اس کے ساتھ ہی جانا ہے، تو آپ بھی نہیں جا سکتیں۔‘‘ عظمیٰ نے گاڑی گھمائی اور اس چیک پوسٹ پر تین سے چار چکر لگائے کہ شائد انہیں کوئی شرم آجائے، مگر نہیں۔ بالآخر عظمیٰ کو متعلقہ ایس ایچ او کو کال کرنا پڑی اور ساری صورتحال سے انہیں آگاہ کرنا پڑا۔
ایس ایچ او کے تعاون سے یہ معاملہ حل تو ہوا، لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ گاڑی پارک کرکے یہ دونوں جب ہوٹل میں داخل ہونے لگے، تو داخلے کے وقت جو عملہ سامان وغیرہ چیک کرتا ہے، ان کی جانب سے ایک بار پھر جیولی کو ہراساں کیا گیا اور دونوں کو نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ عظمیٰ سے پوچھا گیا کہ جیولی ان کے ساتھ ہیں، کیا ان کی کوئی ڈانس پرفارمنس ہے؟ عظمیٰ نے جواب میں کہا کہ ’’جی ہے، آج ہم دونوں یہاں ڈانس کرنے آئے ہیں، پیسے لائے ہو؟‘‘ عظمیٰ کا مقصد ان کو شرمندہ کرنا تھا، مگر کہاں! ہم لوگ کیوں کر شرمندہ ہوں! اس واقعے کے رونما ہونے سے میں پچھلے دو تین سے پریشان تو تھا ہی لیکن آج جب میں یونیورسٹی سے واپس گھر لوٹ رہا تھا، تو مری روڈ پر میں نے ایک خواجہ سرا کو ایک بزرگ خاتون کو سڑک پار کرواتے دیکھا۔ میں اسے دیکھ کر حیران نہیں ہوا، مگر ساتھ ہی میرے چہرے پر خوشی کے تاثرات واضح تھے۔ گاڑی میں بیٹھے میرے دوست زرک بلوچ نے کہا: ’’اس میں حیرت کی بات نہیں، وہ بھی ایک عام شہری ہے۔‘‘ میں اس کی بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں، لیکن اگر یہی بات ہم لوگ بحیثیت قوم سمجھ لیں، تو کیا ہی اچھا ہو۔
پہلی بات تو یہ سوچ ہے ہی نہایت گھٹیا کہ ہم نے تمام تر معاشرے میں تفریق کا فارمولا لگا کر یہ طے کیا ہوا ہے کہ کس طبقے کو کس طرح سے ذلیل کرنا ہے! خواجہ سرا طبقہ ہمارے معاشرے میں جس مقام پر کھڑا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ ہم انہیں معاشرے میں کہیں بھی جگہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم پھر بھی اپنے تمام تر غضب کا نشانہ اس طبقے کو بناتے ہیں۔
برسبیل تذکرہ، پنجاب میں پیش آنے والا وہ شرمناک واقعہ تو سب کو یاد ہوگا جس میں ایک خواجہ سرا کو برہنہ کرکے اس کی بری طرح سے پٹائی کی جا رہی تھی۔ آج تک اس معاملے پر ’’ریاستی مشینری‘‘ کو کچھ بھی کرنے کی زحمت نہیں ہوئی۔ اُلٹا یہ کہ وہاں کا خواجہ سرا طبقہ آج بھی انہی غنڈوں کے غضب کا نشانہ بنتا ہے۔ کس کے سامنے جا کر بولیں؟ کیا فریاد کریں اور کس کو کریں؟
پشاور میں خواجہ سراؤں کی ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ اور پھر علیشہ کو پختونخوا کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے استقبالئے پر سِسک سِسک کر مرنے دیا جانا، ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ کیوں کہ وہ خواجہ سرا تھی؟
فیصل آباد میں جن دنوں خواجہ سراؤں سے زیادتی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر چلی، انہی دنوں کچھ خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک واقعہ اور بھی پیش آیا تھا۔ کچھ بدمعاشوں نے خواجہ سراؤں کی رہائش گاہ میں گھس کر ان کے ساتھ بہت بری طرح سے مار پیٹ کی اور ان کو اسلحے کے زور پر نچاتے رہے۔ بعد میں ان کو شدید جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد فرار ہوگئے۔ ان خواجہ سراؤں میں ایک وہی ’’جیولی خان‘‘ تھی، جسے آج ایک بار پھر معاشرے کے کچھ عناصر کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور اس کو یہ احساس دلایا گیا کہ اسے اس معاشرے کا ایک عام شہری جیسا حصہ کبھی نہیں مانا جاسکتا۔
قارئین، دیکھا جائے تو خواجہ سراؤں پر معاشرے کا ظلم و ستم کسی کو نظر نہیں آتا، ہاں مگر جب وہ زندہ رہنے کے لئے کسی غلط کام کو اپنائیں، تو یہ بات ثابت کردی جاتی ہے کہ یہ طبقہ اسی کام سے پہچانا جاتا ہے۔
کچھ دوستوں کی جانب سے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ اقلیتی حلقوں کے لئے اتنا کیوں بولتے ہیں؟ آپ کو آپ کا باس کتنے روپے دیتا ہے اور خود کتنے کماتے ہیں؟ بات کا سیاق و سباق تو وہ نہیں تھا، مگر مجھے لگتا ہے کہ ہم تمام تر لکھنے بولنے والوں کا یہ اولین فرض ہے کہ جہاں اکثریتی مسائل پر ڈھول ڈھمکا کرتے ہیں وہاں پسی ہوئی، ریاست اور معاشرے کی جانب سے کھڑے کئے ہوئے مسائل کا شکار اقلیتوں کی آواز بھی بنئے۔
ہمارے ہاں بہت بڑے بڑے روشن نام ایسے موجود ہیں جو پاکستان کے شہری ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ اُن والدین جنہوں نے ان کو خود سے الگ کردیا تھا آج بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے سے صرف اتنا انصاف مانگتے ہیں کہ یا تو انہیں اور ان کی شناخت کو قبول کیا جائے، انہیں نوکریاں دی جائیں، کاروبار کرنے کے برابر وسائل دیئے جائیں، کم سے کم اس طرح نہ پیش آیا جائے کہ وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں اور عام شہریوں کی طرح ان کو قبولیت نہیں دی جاسکتی۔ بھئی، کیوں نہیں دی جاسکتی؟ بالکل دی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہی معاشرے کا ایک روشن نام ’’ببلی ملک‘‘ بھی ہے جو کہ نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی میں جوبن کیفے چلا رہی ہے۔ جب ببلی سے دریافت کیا گیا کہ ان کو وہاں معاشرے کے کھردرے رویوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا، تو ان کا جواب یہ تھا کہ ’’بالکل بھی نہیں۔ میں اس کالج کو پھولوں کا ایک باغ سمجھتی ہوں اور جتنی قبولیت مجھ کو یہاں ملتی ہے، آج سے پہلے کہیں اور نہیں ملی۔‘‘
’’جیولی‘‘ خود بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ انہوں نے ڈبل ریاضی شماریات میں گریجویشن کر رکھا ہے اور اب ایک غیر منافع بخش ادارے میں عزت کے ساتھ اپنا روزگار کر رہی ہیں۔ فرض کریں اگر یہ لوگ اپنی بساط پر معاشرے کی ہزار رکاؤٹیں پھلانگ کر یہاں تک آسکتے ہیں، ان کو کم از کم قبول کرلیا جائے، تو یہ پاکستان کا نام بالکل اسی طرح روشن کرنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں، جس طرح ہمارے دوسرے روشن ستارے ملک کا نام دُنیا بھر میں روشن کررہے ہیں۔ان کو صرف معاشرے میں جائز مقام چاہئے۔
لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ زوال پذیر یہ معاشرہ اپنے غضب کا نشانہ کس کو بنائے گا؟
…………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔