قارئینِ کرام! گذشتہ روز سوات پولیس کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی۔ سرِ دست آپ پریس ریلیز پڑھ لیں۔ اس کے بعد سلسلے کو آگے بڑھائیں گے:
’’سوات پولیس نے سوات میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر پندرہ روزہ مہم میں 9 ہزار 53 گاڑیوں کا چالان کرکے لاکھوں روپے جرمانے کی رقم وصول کرلی۔ پولیس بیان کے مطابق کارروائی کے دوران 1886 گاڑیوں سے کالے شیشے، 1547 گاڑیوں سے غیر نمونہ اور جعلی نمبر پلیٹ، ون ویلنگ پر 131 ڈرائیور، 2428 کم سن ڈرائیور، 420 رکشوں اور 490 دیگر گاڑیوں کو پکڑ کر لاکھوں روپے جرمانہ کیا گیا۔ کم سن موٹر سائیکل سواروں کو پکڑ کر ان سے تین روز کے لیے موٹر سائیکل بند کرنے کے بعد ان کے والدین سے تحریری حلف نامہ لینے کے بعد چھوڑا گیا۔‘‘
اس پریس ریلیز کو پڑھنے کے بعد جس طرح مجھے اس پر یقین نہیں ہو رہا تھا، امکان ہے کہ آپ کو بھی نہیں ہوتا ہوگا۔ مذکورہ پریس ریلیز کے حوالے سے پولیس سے چند سولات کرنے ہیں۔
یہ کہ جو 9 ہزار سے زائد گاڑیوں کا چالان کیا گیا…… ان میں پولیس، سرکاری اور فوجی گاڑیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اس کا جواب بلاشبہہ ’’صفر‘‘ ہوگا۔ اس طرح جن کا چالان کیا گیا ان میں لگژری یا با اثر لوگوں کے زیرِ استعمال گاڑیوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ جواب پھر ’’صفر‘‘ ہوگا۔ یقینا جن گاڑیوں کا چالان کیا گیا ہے، ان میں موٹر سائیکل، رکشے، سوزکی پک اَپ، فلاینگ کوچ اور چھوٹی موٹی کسٹم چور گاڑیاں ہوں گی۔
پولیس پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1886 گاڑیوں کے شیشوں سے کالے سٹیکر ہٹائے گئے۔ سوات میں لاکھوں کی تعداد میں قانونی و غیر قانونی گاڑیاں ہیں جن میں 95 فیصد گاڑیوں کے شیشے کالے ہیں۔ پریس ریلز میں کہا گیا ہے کہ1547 گاڑیوں سے غیر نمونہ اور جعلی نمبر پلیٹ ہٹا دیے گئے۔ تو میرا سوال ہے کہ سوات میں ہر ہفتہ سیکڑوں کسٹم چور گاڑیاں آتی ہیں اور سب پر "APL 2021” یا اس طرز کے نمبر پلیٹ کیوں لگے ہوتے ہیں؟ اس طرح ایک نمبر پر تیس تیس، چالیس چالیس رکشے کیوں چلتے ہیں؟
پریس ریلیز میں یہ بھی درج ہے کہ 2428 کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ یہاں مینگورہ میں تو ہزاروں کی تعداد میں رکشوں اور موٹر سائیکل سواروں میں ہر 100 میں 80 ڈرائیور کم سن ہی ہوتے ہیں۔ یورپ، انگلینڈ، امریکہ، دبئی اور دیگر ممالک میں تو لائسنس حاصل کیے بغیر کوئی گاڑی نہیں چلا سکتا اور ہر ڈرائیور کے لائسنس میں کچھ پوائنٹ ہوتے ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ان سے آہستہ آہستہ پوائنٹ کٹتے جاتے ہیں۔ اگر کسی لائسنس یافتہ ڈرائیور سے تین یا پانچ پوائنٹ کاٹ دیے جاتے ہیں، تو اس کا لائنسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ ڈرائیونگ لائسنس کا تب پوچھا جاتا ہے، جب کوئی حادثہ ہوجائے اور معاملہ پولیس یا عدالت تک پہنچ جائے۔ اس کے علاوہ خیر خیریت ہے۔
اس حوالے سے ہمارے ایک دوست سجاد بھائی جان کے بقول، وہ سیدو شریف سے حیات آباد جا رہے تھے، تو ایک رکشے کو رکنے کا اشارہ کیا، جس کو ایک کم عمر ڈرائیور چلا رہا تھا۔ جب وہ رکشے میں بیٹھ گئے، تو ڈرائیور نے پوچھا کہ کہا جانا ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ حیات آباد۔ ڈرائیور نے پھر پوچھا کہ یہ حیات آباد کہاں ہے؟ جواب دیا گیا کہ فضاگٹ والا راستہ ناپا جائے۔ کم عمر ڈرائیور پھر پوچھتا ہے کہ فضاگٹ کہاں پر ہے؟ اس کی ڈرائیونگ بھی ٹھیک نہیں تھی، تو سجاد بھائی جان اس کو رُکنے کا کہتے ہیں۔ جب وہ رُکتے ہیں، تو بھائی جان اس سے پوچھتے ہیں کہ کہاں رہتے ہو؟ ڈرائیور جواب دیتا ہے کہ فیض آباد میں اپنے ماموں کے گھر۔ بھائی جان پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو؟ ڈرائیور جواب میں ایک اور ضلعے کا نام بتاتا ہے۔ سجاد پوچھتے ہیں کہ کب آئے ہو؟ تو جواب ملتا ہے کہ چار، پانچ دن پہلے۔ سوال پوچھا گیا کہ رکشہ کس کا ہے؟ جواب ملا، قسطوں پر لیا ہے۔اس کے بعد سجاد بھائی جان کہتے ہیں کہ ڈرائیور کے پاس لائسنس تو کیا شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ اس کو کچھ رقم دے کر بھائی جان دوسرا رکشہ لے کر روانہ ہوتے ہیں۔
قارئین، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل مینگورہ شہر میں جگہ جگہ غیر قانونی رکشے تیار ہو رہے ہیں جو ماہانہ قسطوں پر باآسانی مل جاتے ہیں۔ اس طرح جگہ جگہ موٹر سائیکلیں قسطوں پر ملتی ہیں۔ اس بابت پوچھنے والا کوئی نہیں…… جس کی وجہ سے روز بہ روز حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب بعض رکشے یا سوزکی پک اَپ والے ٹریفک وارڈن سے دو سو روپے کا چالان لے لیتے ہیں اور جب اُس کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں پکڑا جاتا ہے، تو وہ مذکورہ چالان دکھا کر گلوخلاصی کرلیتے ہیں۔ اب جب ڈرائیور کے پاس چالان ہے، تو اس کا مطلب ہوا کہ اس نے پہلی بھی غلطی کی ہوئی ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ اس سے زیادہ کا چالان اسے تھمادیا جائے، تاکہ وہ سہ بارہ غلطی نہ کرے۔
ٹریفک قوانین کی سب سے زیادہ غلطی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کرتے ہیں۔ گراسی گراونڈ کے قریب اگر کوئی گاڑی کھڑی کردے، تو ٹریفک پولیس اسے لفٹر کے ذریعے اٹھا کر نالے کے آر پار رکھ دیتی ہے۔ مگر ہر ماہ کی پہلی اور دوسری تاریخ کو وہاں فوجیوں کی متعدد گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں…… لیکن مجال ہے کہ پولیس ان کو ہاتھ تک لگا سکے۔
سب سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پولیس خود کرتی ہے۔ جب بھی کوئی پولیس آفیسر کہیں جا رہا ہوتا ہے، تو اس کی گاڑی سے آگے ایک پولیس موبائل (جسے پائلٹ بھی کہا جاتا ہے) ہوتا ہے…… وہ سائرن بجا کر راستہ صرف اپنے آفیسر کے لیے خالی کرتا ہے۔ یہی حال وزیروں اور مشیروں کا بھی ہے۔
قارئین، نیویارک اور سنٹرل لندن کی اکثر سڑکیں مینگورہ کی سڑکوں سے بھی تنگ ہیں لیکن مجال ہے کہ وہاں کبھی ٹریفک جام ہوئی ہو۔ البتہ کبھی کبھار رش کی وجہ سے خلل پڑجاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ٹریفک جام گویا معمول ہے…… اور تو اور نمازِ جمعہ کے وقت بھی ٹریفک جام ہوتی ہے۔ اگر آپ کو کسی کام کی غرض سے مینگورہ تا کبل یا ننگولئی جانا ہو، توآپ کو چار سے چھے گھنٹوں کا وقت اور ڈھیر سارا پٹرول درکار ہوگا۔ کیوں کہ مینگورہ شہر سے بحفاظت نکلنے کے بعد آپ کو بائی پاس اور پھر کانجو پل (پلِ صراط) سے گزرنا ہوگا۔ پھر آپ کو کانجو چوک میں کھڑے ہوکر دکانوں پر لگے تمام بورڈ پڑھنا ہوں گے۔
قارئین، ٹریفک کا مسئلہ پولیس اور انتظامیہ حل کرسکتی ہے۔ لیکن اگر سرکاری افسران اسی طرح دفاتر میں بیٹھ کر دستخط پر اکتفا کرتے رہے، تو نظام بہترہونے کی بجائے ابترہی ہوگا۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔