اس سے پہلے ہم آزادی کے انہیں صفحات پر خلفائے راشدین سے لے کر قائدِ اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو تک جیسے عظیم راہنماؤں کے عوام کی اہمیت و طاقت بارے تجربات و خیالات رقم کرچکے ہیں۔ آج اس موضوع پر ایک دوسرے نقطۂ نظر سے لکھنے کی کوشش ہے۔ یہ خیال ہمیں خیبر پختون خوا کے گذشتہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج جان کر اور ان انتخابات میں تحریکِ انصاف کی حکومت کہ جس کی سیاسی طاقت کا منبع خیبر پختون خوا تھا، کی ناکامی دیکھ کر آیا۔
قارئین، ایک دفعہ پھر یہ قانونِ قدرت واضح نظر آیاکہ عوام کو نظر انداز کرنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے نظریہ پر ’’کمپرومایز‘‘ کرلے، تو وہ اسی طرح تباہ ہوتی ہے۔ مجھے کبھی اپنے سیاسی شعور بارے خوش فہمی نہ رہی…… لیکن یہاں دو واقعات بیان کرنا ضروری ہے۔
یہ بات سنہ 1988ء کی ہے…… جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی بہت مضبوط تھی۔ تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کے باجود وہ پارلیمانی انتخابات جیت گئی تھی…… لیکن چوں کہ الیکشن کو بہت ہوشیاری سے مینج کیا گیا تھا، اس لیے پیپلز پارٹی کو ایک لولی لنگڑی اکثریت ملی تھی۔ مَیں نے تب بالکل نوجوانی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ لکھا تھا کہ ’’بی بی حکومت کے حصول کے لیے جو آپ پر سراسر ناجائز اور ظالمانہ شرایط کا نفاذ کیا جا رہا ہے، اس کو ماننے سے انکار کر دیں…… اور ایک پریس کانفرنس کرکے تمام حقائق عوام کے سامنے رکھ دیں۔ یہ اعلان کر دیں کہ اگر عوام کے مینڈیٹ کو اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرنے سے انکاری ہے، تو پاکستان پیپلز پارٹی حزبِ اختلاف میں بیٹھ جائے گی اور اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کے ساتھ حکومت چلا کر دکھا دے۔‘‘
لیکن ظاہر ہے تب ہمارے جیسے معمولی بندوں کی بات کی کیا اہمیت ہو سکتی تھی۔ محترمہ نے کمپرومایز کرکے حکومت لی…… لیکن پی پی پی کی یہ حکومت پارٹی کو سیاسی طور پر کم زور سے کم زور تر کرتی گئی۔ اس طرح 2018ء کے انتخابات کے بعد اس حقیر فقیر نے بالکل یہی بات عمران خان کو بھی لکھی تھی کہ ’’خان صاحب! ایک پریس کانفرنس کریں اور یہ اعلان کر دیں کہ تحریکِ انصاف مرکز میں حکومت نہیں بنائے گی۔ دوسری طرف کا چوں چوں کا مربہ حکومت تشکیل دے لے۔ کیوں کہ ان حالات میں میری حکومت اپنے منشور کہ جس کا اولین مقصد ’’کرپشن کا خاتمہ‘‘ ہے، پر عمل درآمد نہیں کر پائے گی۔‘‘ لیکن خان صاحب کو شیروانی پہننے کی جلدی تھی…… اور آج نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف حکومت کے بیشتر شعبوں میں کرپشن نظر آرہا ہے اور پارٹی احتساب کے عمل میں بری طرح ناکام ہوکر رہ گئی ہے…… بلکہ غیر مقبول بھی ہوچکی ہے۔
قارئین، یہاں پر یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ تب محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ (کہ تب مَیں ایک نوجوان سیاسی کارکن تھا) کو بذریعہ خط ان وجوہات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا کہ جس کی وجہ سے محترمہ کو حلف لینا پڑا۔ اب محترمہ کی نیت کیا تھی……؟ مَیں نہیں جانتا…… لیکن ان کی توجیحات میں دم تھا۔ ان کا سب سے بڑا جواز یہ تھا کہ میرے کارکن 11 سال سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ اگر میں حکومت نہ لیتی، تو ان کو شاید مزید کئی سال اس سیاسی وابستگی کی سزا ملتی رہتی۔ مَیں ان غریب ملازمین کو فوری طور پر ریلیف دینا چاہتی تھی…… جو مارشل حکام نے سیاسی تعصب میں نکالے تھے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن خان صاحب کسی عام آدمی کو جواب دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔بہرحال خان صاحب کے پاس ایسا کوئی جواز ہے بھی نہیں۔ وہ شاید 22 سال کی سیاست سے تھک چکے تھے…… یا پھر ان کا خیال تھا کہ اگر یہ ’’ٹرین مس‘‘ کر دی، تو پھر موقع ہی نہ ملے۔ حالاں کہ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر خان صاحب حکومت نہ لیتے، تو آئندہ انتخابات میں ان کی پوزیشن شاید 1970ء والے ذوالفقار علی بھٹو کی ہو جاتی کہ ایک بے جان کھمبے کو بھی ’’بلے‘‘ کا نشان دیتے، تو اس پر بھی ٹھپوں کی بارش ہوجاتی۔ نہ یہ روایتی خاندانی سیاست دان ان کی مجبوری بنتے نہ ضرورت…… اور تب وہ شاید ملک و قوم کی بہتر خدمت کرتے…… لیکن خان صاحب کی ہوسِ اقتدار اور جلد بازی نے ان کو تو تباہ کیا ہی کیا…… لیکن افسوس انہوں نے خود اپنے ہاتھوں تحریکِ انصاف کی بھی قبر کھود لی ہے۔ اس کا براہِ راست نقصان ملک میں نظریاتی سیاست کو ہوگا۔
قارئین، ملک کا وہ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ جو خان صاحب سے ایک خاص امید رکھتا تھا اور ملک میں تبدیلی کا مشتاق تھا…… وہ شدید مایوس ہوگیا ہے اور اس حد تک مایوس ہوا ہے کہ شاید وہ اب آئندہ پارلیمانی سیاست میں شریک ہی نہ ہو۔ گویا سیاست اور جمہوریت سے اس کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں…… اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اب آئندہ ملک میں کوئی مہم جوئی ہوئی، کوئی غیر آئینی اقدام کیا گیا، تو اس نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کا رویہ اس کے حق ہی میں ہوگا۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریت پوری طرح خان صاحب کے ہاتھوں سے پھسلی بھی نہیں۔ اب بھی بہرحال ان کے پاس ایک ’’رسک‘‘ لینے کی گنجایش ہے…… اور وہ ’’رسک‘‘ ہے اسمبلیاں توڑنے کا۔ وگرنہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے…… معاملات پر وزیراعظم کی گرفت کم زور سے کم زور تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں اور کابینہ کے ارکان کو احساس ہو رہا ہے کہ آئندہ ’’چانس‘‘ بالکل نہیں۔ اس لیے جو وقت باقی ہے…… اس میں بقولِ مرحوم مولانا منور حسن (جماعت اسلامی والے) لٹو تے پھٹو…… یعنی ’’جتنا مال بنا سکتے ہو، بنا لو۔ ہم نے کون سا دوبارہ آنا ہے۔‘‘
ان حالات میں جب کہ خان صاحب کی حکومت پر گرفت نہایت ہی کم زور ہے۔ نظریات پر تو پہلے ہی ’’یوٹرن‘‘ کے سونامی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ اب کابینہ اور اعلا حکومتی و جماعتی عہدیداران مستقبل کی پیش بینی میں مصروف ہیں، تو بہتری کی امید یا گنجایش کیسے ہو سکتی ہے؟
مطلب ہر گزرنے والا لمحہ خان صاحب اور ان کی تحریکِ انصاف کو غیر مقبول سے غیر مقبول تر بناتا جائے گا…… بلکہ مجھے خطرہ ہے کہ آیندہ الیکشن میں خان صاحب کو امیدوار بھی نہیں ملیں گے۔ کیوں کہ تب عوام صرف ووٹ نہ دینے کا فیصلہ ہی نہیں کریں گے…… بلکہ ممکنہ طور پر بلے کے نشان پر الیکشن لڑنے والوں کے لیے انتخابی مہم تک چلانا ناممکن ہو جائے گا۔
اور جو خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے دوران میں وزیرِ اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ ہوا…… وہی کچھ تحریکِ انصاف کے ہر امیدوار کے ساتھ ہوگا۔ پھر شاید خان صاحب کو دوبارہ رسمی سا بھی بحال ہونے کا موقع نہ ملے اور خان صاحب بچی کچھی عزت بھی ضائع کردیں…… اور تاریخ میں یحییٰ خان سے بھی نچلی سطح پر مقام پائیں۔ سو اب وہ مہربانی کریں اور کچھ اگر پوری عوام کا نہ بھی ہو، تو کم از کم اپنے جذباتی ٹائیگرز کا ہی خیال کریں۔
مزید ایک بات…… خان صاحب! آپ کو ابھی خبردار کیا جاتا ہے کہ جناب، اگر اس خوش فہمی میں ہیں اور میرے اندازے کے مطابق اس پر جناب کو سمجھایا جا رہا ہے کہ آپ ڈیڑھ سال بعد ایک نہایت ہی جذباتی پریس کانفرنس کریں گے…… اور اس میں یہ فرمائیں گے کہ ’’میرے پاکستانیو! میں اب سمجھا ہوں کہ یہ نظام بہتر آدمی کو کامیاب ہونے ہی نہیں دیتا۔ یہ روایتی سیاسی جھونکیں ہر امانت دار کو ناکام کر دیتی ہیں۔ اب مَیں 5 سال کے تجربہ کے بعد یہ سمجھ گیا ہوں۔ اب مَیں اپنے مخلص اور دیانت دار کارکنان کو ٹکٹ دوں گا۔ آپ میرا ساتھ دیں…… تاکہ مَیں نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر نیا طریقہ لاؤں!‘‘
خان صاحب، اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام پھر ’’بے وقوف‘‘ بن جائیں گے، تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یہ خوش فہمی ابھی سے دور کرلیں۔ کیوں کہ پانچ سال مکمل کرنے کے بعد یہ بیانیہ عوام میں بس ایک لطیفہ کی حیثیت سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جائے گا۔
بہرحال، فیصلہ آپ ہی نے کرنا ہے۔ ہم آپ کو ایک مرتبہ پھر مشورہ مفت ہی دیتے ہیں کہ خیبر پختون خوا کے جزوی بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد آپ کے پاس صرف ایک راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ آپ بغیر وقت ضائع کیے اسمبلیوں کو توڑ کر عوام میں جائیں۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ آپ کی بات کو عوامی سطح پر کسی نہ کسی حد تک تھوڑی بہت پذیرائی مل ہی جائے۔
آخر میں ہم تحریکِ انصاف کے دوسرے اور تیسرے درجہ کی لاٹ خاص کر کابینہ کے ارکان سے بھی یہ التماس ضرور کریں گے کہ اب جب کہ آپ کی حکومت کا آخری وقت شروع ہوچکا ہے، تو اس میں اور کچھ نہیں، تو کم از کم خدا کا خوف ہی کرلیں اور کچھ نا کچھ عوام کو ریلیف دے دیں۔ یہ نہیں کہ آپ یہ سوچ کر مزید پیسا بناتے رہیں کہ ہم نے اگلے انتخابات میں کون سا تحریکِ انصاف کا ٹکٹ لینا ہے!
نو سر! عوام یقینا یہ بھی نوٹ کریں گے کہ آپ سب کا مشترکہ بوجھ خالی خان صاحب کے کندھے پر کیوں ڈالا جائے……!
…………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔