ترجمہ نگار: توقیر بھُملہ
ایک قصبے میں پالتو جانور فروخت کرنے والی ایک دُکان کے باہر، ایک نیا اشتہار آویزاں تھا…… جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ ’’پِلّے برائے فروخت!‘‘
کتے کے پِلّوں کی خرید و فروخت کے متعلق اشتہارات بچوں کو ہمیشہ سے پُرکشش لگتے ہیں۔صبح کے وقت جیسے ہی دُکان کھلی، تو ایک چھوٹا لڑکا، سب سے پہلے اس دُکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو کہنے لگا…… ’’میں پِلّے خریدنا چاہتا ہوں…… ان کی کیا قیمت ہے……؟‘‘
دکان دار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ نایاب نسل کے خوب صورت پِلّے انتہائی کم داموں کے ساتھ برائے فروخت ہیں۔ ان کی قیمت 30 ڈالر سے لے کر 50 ڈالر کے درمیان ہے۔
لڑکے نے اپنی ساری جیبیں الٹ دیں…… اور ان سے برآمد ہونے والی رقم گنی تو کل ملا کر دو ڈالر اور سینتیس سینٹ بنے۔ لڑکا کہنے لگا: ’’میرے پاس تو مطلوبہ قیمت سے رقم کم ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ مَیں ان چند ڈالر کے عوض ان پِلّوں کو تھوڑی دیر دیکھ سکوں…… اور ان کے ساتھ کھیل سکوں……؟‘‘
دکان دار نے خوش دلی سے کہا: ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں……!‘‘
اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹ سکیڑ کر سیٹی کی آواز نکالی اور پِلّوں کا نام لے کر جیسے ہی آواز دی، تو دُکان کے اندرونی حصے سے پانچ چھوٹے چھوٹے پِلّے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نمودار ہونے لگے۔ نیلی آنکھوں والے سفید روئی کے گالوں کی مانند وہ انتہائی دلکش پِلّے تھے۔ لڑکے نے دیکھا کہ ان پانچوں میں سے آخر والا ایک پِلّا لنگڑا لنگڑا کر بمشکل چل رہا تھا اور باقی پِلّوں کے ساتھ مل کر چلنے کے لیے تقریباً اپنا جسم گھسیٹ رہا تھا۔اگر کوئی غور سے دیکھتا، تو پِلّے کی آنکھوں میں لنگڑاہٹ کی تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا۔
چھوٹے لڑکے نے جیسے ہی اس لنگڑاتے ہوئے پِلّے کو دیکھا، تو خوشی سے چلانے لگا اور پُرجوش آواز میں کہنے لگا: ’’شان دار، زبردست، بالکل یہی، مَیں اسی طرح کا پِلّا چاہتا تھا…… یہ انتہائی خوب صورت اور منفرد ہے…… بس میں اب اسے ہی خریدوں گا!‘‘
دُکان دار نے لڑکے کا جوش دیکھتے ہوئے کہا: ’’واقعی میں بچے بے وقوف ہی ہوتے ہیں…… ہمیشہ اچھی چیز کو چھوڑ کر اس کے برعکس کوئی چیز منتخب کرتے ہیں۔اگر تم اس پِلّے کو لینے میں سنجیدہ ہو تو، میں اپنی طرف سے تمھیں یہ تحفتاً دے سکتا ہوں۔ کیوں کہ یہ پیدائشی ایسا ہے…… اور جانوروں کے ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا تھا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگ میں قدرتی نقص ہے…… جو کسی طرح بھی دور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی دیکھ بھال پر ویسے بھی میرا خرچ زیادہ اُٹھ جاتا ہے…… جس سے میں پریشان رہتا ہوں!‘‘
لڑکا ناراض ہوتے ہوئے چلا کر کہنے لگا: ’’نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے…… تم اس کی قیمت گھٹا کر اس کے ساتھ زیادتی کررہے ہو…… مَیں یہ پِلّا مفت میں نہیں لے سکتا…… مَیں اس کی اتنی ہی قیمت ادا کروں گا، جتنی کسی دوسرے صحت مند پِلّے کی ہے۔ آپ ایسا کریں…… میرے یہ دو ڈالر اور سینتیس سینٹ ابھی سے پیشگی اپنے پاس رکھ لیں…… اور بقیہ میں آپ کو قسطوں میں پچاس پچاس سینٹ روزانہ دے دیا کروں گا۔‘‘
دُکان دار نے حیرت سے اس چھوٹے لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’ اگر تم اپنی بے وقوفی پر بہ ضد ہو، تو ٹھیک ہے…… جیسے تمھاری مرضی…… مگر مَیں پھر بھی یہی کہوں گا کہ تمھیں اسے خریدنا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ مَیں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک لنگڑاتا ہوا پِلّا جو شاید کچھ وقت کے بعد چلنے سے بالکل معذور ہوجائے…… جو نہ تو تمھاری آواز سن کر دوڑتا ہوا تمھارے پاس آسکتا ہے…… نہ اچھل کود کرتے ہوئے تمھارے ساتھ کھیل ہی سکتا ہے…… جو پِلّا تمھیں خوشی نہیں دے سکتا…… تم اسے کیوں خریدنا چاہتے ہو……؟ ‘‘
دُکان دار کی یہ بات سن کر، چھوٹے لڑکے نے اپنی پتلون کے پائنچے اوپر کیے اور اسٹیل سے بنی ہوئی اپنی مصنوعی ٹانگوں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا: ’’مَیں بھی پیدائشی معذور ہوں…… ان مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ نہ تو میں دوڑ سکتا ہوں…… اور نہ اچھل کود ہی کرسکتا ہوں…… مَیں کسی کے ساتھ کھیل بھی نہیں سکتا۔ اسے خرید کر مجھے خوشی حاصل ہوتی ہے یا نہیں…… لیکن اس پِلّے کو کم از کم کوئی ایسا دوست ضرور چاہیے ہے جو اس کے درد کو سمجھتا ہو۔‘‘
(مصنف ’’ڈین کلارک‘‘ کی انگریزی کہانی "Puppies for sale” کا اُردو ترجمہ)