ہر شخص خواب دیکھتا ہے۔ لوگ جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ کچھ خواب دکھائے جاتے ہیں…… جن کی تعبیر سیاست دانوں کو ووٹ کی شکل میں ملتی ہے۔ عوام جتنا خوابِ خرگوش کے مزے لیں…… اتنا ہی سیاست دانوں کے مستقبل کے لیے معاملات سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ تبھی تو ایک شاعر نے کہا تھا کہ
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
خواب ایک ذہنی فعل کا نام ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کا خیال ہے کہ خواب مستقبل سے آگاہ نہیں کرتے…… بلکہ انسان کی ناآسودہ خواہشات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہ ناآسودہ خواہشات ہی ہیں…… جن کو خواب میں انسان پورا ہوتے دیکھتا ہے۔
خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک کا تعلق انفرادی طور پر انسان کی شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے…… جس میں ذاتی زندگی کا کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
دوسرا اجتماعی نوعیت کا خواب ہے…… جس کا تعلق بعض اوقات معاشرے سے ہوتا ہے ۔
قرآنِ کریم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زِنداں میں قید کے دور میں مصر کے بادشاہ کے خواب کا ذکر کیا ہے…… جس نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں۔ انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور باقی سات سوکھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہوگے۔ ان سات برسوں میں غلے کی فراوانی خوب ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا ہو گا۔ (سورۂ یوسف، آیت نمبر 43)
یہ مستقبل کی پیش بینی تھی جو حضرت یوسف کی زبان سے جاری ہوئی اور بادشاہ کا تعلق کیوں کہ معاشرے سے اور رعایا سے تھا، تو اس کو تمثیل کے ذریعے مستقبل کی آفت سے خبردار کیا گیا تھا۔
گائے قدیم دور میں سال کی علامت سمجھی جاتی تھی اور اس کے فربہ ہونے سے مراد خوشحالی کے سال تھے…… جب کہ سات سوکھی گائیں سختی اور قحط کے سالوں کی آمد کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ ان سالوں کا تعلق سات ہری بالیوں اور پھر سات سوکھی بالیوں سے لطیف انداز میں کیا گیا تھا۔ یعنی پہلے سات سال غلہ کی فروانی ہوگی…… اور اس بعد کے سات سال قحط کی وجہ سے پیداوار ناپید ہوگی۔ یہ تعبیر اتنی منطقی تھی کہ بادشاہ نے فورا ًاس کو قبول کیا۔
قدیم انسان خوابوں کو اشارات سمجھا کرتا تھا…… مگر آج سائنس یہ بتاتی ہے کہ بہت سے خواب طبیعی وجوہات کا نتیجہ ہوتے ہیں…… جن میں سوتے وقت جسمانی حالت کا پُرسکون نہ ہونا، یا پیٹ بھر کر کھانا کھا کر فوراً سوجانا بدخوابی کی وجہ ہوسکتا ہے۔
بعض ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ لاشعوری طور پر ہم اپنے آبا و اجداد کی طرح سوچتے ہیں اور ممکن ہے کہ ہمارے والدین کی ذہنی نفسیات میں بیٹھا ہوا کوئی پرانا خوف موروثی طور پر ہمیں منتقل ہوا ہو…… اور ہم ایسے خواب بار بار دیکھتے ہوں جن کا ہماری ظاہری زندگی سے کوئی تعلق نہ ہوتا ہو۔
بعض اوقات ذہن میں بیٹھا ہوا کوئی خوف بھی خواب میں حقیقت کا روپ دھارتا ہوا نظر آتا ہے…… جیسے ہماری یہاں کی خواتین خواب میں اپنے شوہروں کی دوسری شادی ہوتے بہت دیکھتی ہیں۔ اب یہ پتا نہیں کہ حقیقت میں کوئی خوف ہوتا ہے…… جو ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں موجود ہوتا ہے…… یا پھر وہ برابر میں سوئے ہوئے شوہر کے دماغ سے کنکشن جوڑ لیتی ہیں…… جو مزے سے دوسری شادی کے سہانے سپنے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
چینی لوگوں کا کسی ملاپ اور بڑی فرحت انگیز ملاقات کے بعد عام مقولہ ہوتا ہے کہ ’’اچھا جناب، بہت بڑا جشن جس کا پنڈال سیکڑوں میل میں پھیلا ہوتا ہو، اس کا انجام اور اس کی انتہا بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوتی ہے۔‘‘ گویا زندگی کا یہ جشن…… سوتے جاگتے کا جشن…… خواب ہے اور شاید یہی اس کا اصل حسن ہے ۔
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
جدید سائنس نے پتا لگایا ہے کہ جانور بھی خواب دیکھتے ہیں۔ گرگٹ کے بارے میں حیاتیاتی ماہر بتاتے ہیں کہ وہ خواب دیکھتا ہے۔ نیند کے دوران میں اس کی آنکھیں کافی تیز رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔
انسان بھی جب گہری نیند میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہے، تو اس وقت اس کی بھی آنکھیں پتلیوں کے نیچے تیز رفتاری سے حرکت کرتی ہیں۔ انسان اور گرگٹ میں ایک اور چیز مشترک ہے۔ دونوں کس وقت رنگ بدل لیں…… اس کا پتا نہیں چلتا۔
پرانے زمانے میں لوگ جانوروں کو خواب میں دیکھنے کے بھی معنی نکالتے تھے۔ مثلاً شیر کو اگر خواب میں دیکھا جائے، تو یہ مستقبل میں کسی سخت دشمن سے پالا پڑنے کی نشانی مانی جاتی تھی۔ ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ وہ کافی عرصہ تک ایک شیرنی کو خواب میں دیکھتے رہے۔ کچھ عرصے بعد ان کی شادی ہوگئی، تو ان کو تعبیر سمجھ میں آئی۔
اگر کتے کو خواب میں دیکھا جائے، تو کسی وفادار دوست کے ملنے کی تعبیر لی جاتی ہے۔
پطرس بخاری نے خواب میں کتوں کے دیکھے جانے کا ذکر کیا تھا کہ وہ ایک دفعہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ بہت سارے کتے پیروں سے لپٹے ہوئے ہیں۔ آنکھ کھلی، تو دیکھا کہ پیر چارپائی کی ادوائن میں پھنسے ہوئے تھے ۔
اکثر لوگ مردہ لوگوں کی خواب میں آمد اور ان سے گفتگو کو بھی مستقبل کے اشارے سمجھتے ہیں جب کہ انسان زندہ اور مردہ دونوں افراد کو خواب میں دیکھتا ہے۔ اگر انسان خواب میں کسی زندہ شخص کو دیکھے، تو یقینا بیدار ہوکر اس شخص سے یہ نہیں پوچھے گا کہ کیا آپ میرے خواب میں آئے تھے؟
بعض اوقات خواب چھپی ہوئی خواہشات کا اظہار بھی کرتے ہیں…… مگر ان کو عنوان کے تحت لانا ضرورت سے زیادہ سہل پسندی ہے۔ آرزو مندانہ خواب آسانی سے پہچانے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک خواب میں ایک پیاسا خود کو صاف شفاف پانی پیتے اور ایک بھوکا خود کو لذیذ کھانا کھاتے دیکھتا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے والا ان چیزوں کو دہراتا ہے جن کو اس نے کبھی دیکھا تھا یا پڑھا تھا…… مگر پھر وہ ان کو بھول گیا۔
2010ء کی ہالی ووڈ کی فلم انسیپشن جس کو چار اکیڈمی ایوارڈ ملے، دو ایسے چوروں کے گرد گھومتی ہے…… جو دوسروں کے دماغ کے ’’سب کانشس‘‘ میں گھس کر آئیڈیا چرانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایک مشین کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹارگٹڈ آدمی کو نیند کی گولی دے کر اس کی نیند پکی کی جاتی ہے اور مشین کے وائرز سے دونوں چور خود کو اور ٹارگٹڈ شخص کو منسلک کرکے اس کے سب کانشس میں گھس جاتے ہیں۔ خواب کا ڈیزائن ان دونوں چوروں کا پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جس میں وہ ٹارگٹڈ شخص کو داخل کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔
فی زمانہ اگر یہ مشین بازار میں بک رہی ہو، تو اس کی سب سے بڑی خریدار شادی شدہ خواتین ہونگیں۔ یہ روز رات کو اپنے میاں کی کلائی پر تار باندھ کر اس کے خوابوں میں گھس جائیں گی اور پھر مرد بے چارہ خواب میں بھی کسی نامحرم عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا۔
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔