عادت ختم ہو چکی ہے یا یوں کہہ لیجیے عادت نہیں رہی۔ اب الماری کی طرف دیکھتے ہوئے نیند آنے لگتی ہے۔ کیسے پڑھوں اتنی موٹی کتاب! لکھنا تو محال تھا ہی، اب پڑھنا بھی عذاب ہو گیا ہے۔ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ لکھنے بیٹھوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قلم بول رہا ہو: "بھائی کیوں زبردستی کرتے ہو؟ کہا ناں لکھنے کا من نہیں! تم بھی عجیب شخص ہو۔ اچھا کیا لکھو گے؟ کہانی! رہنے دو، تم کہانی نہیں لکھتے۔” میں نے چپکے سے کہا، تم تو جانتے ہو ناں۔ میں زبردستی کا قائل نہیں۔ میرے نزدیک قلم، قرطاس اور ذہن کی باہمی رضامندی ضروری ہے۔ استادِ محترم نے بھی متعدد دفعہ کہا، لکھو لیکن حالات جوں کے توں۔ آخرِکار تنگ آکر انھوں نے بھی کہنا چھوڑ دیا۔ جیسے کسی ضدی بچے کو گھر والے کچھ کہنا چھوڑ دیتے ہیں۔ خیر، یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے، جسے میں سلجھا ہی لوں گا۔ لکھتے لکھتے قلم اور نظر ایک ساتھ اٹھتے ہیں اور نظر سامنے شیلف پر چند کتابوں پر جا رکتی ہے۔ اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہوئے پہلی کتاب بانو آپا کی ہے "حاصل گھاٹ”۔ ساتھ میں بالکل نیچے یعنی دوسرے نمبر پر "دریچے” رکھی ہے، جو کہ کرنل شفیق الرحمان صاحب نے لکھی ہے۔ ہاں، تیسری والی میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ایک کی ہے۔ نام سے تو آپ ضرور جانتے ہوں گے۔ اس کتاب کا نام "خانہ بدوش” ہے اور یہ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے لکھی ہے۔ میں دو دفعہ پڑھ چکا ہوں، کافی دلچسپ ہے۔ اگلی کتاب پھر بانو آپا کی ہے، جس کا نام "ایک دن” ہے۔ پھر پطرس کے مضامین کے نام سے ایک کتاب دھری ہے جو پطرس بخاری نے لکھی ہے۔ گلی دو کتابیں مرحوم واصف علی واصف صاحب کی ہیں۔ جن کے نام دل دریا سمندر اور قطرہ قطرہ قلزم بالترتیب رکھی گئی ہیں۔ کچھ کتابیں شاعروں کی بھی ہیں”کلیاتِ ساغر”۔ ایک اور دلچسپ کتاب بھی ہے۔ پڑوسی ملک میں خاصی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کی ہے، جو بڑی محنت کے بعد میرے ہتھے لگی "کلام” کے نام سے شائع ہے۔ دیوانِ غالب اور فیض احمد فیضؔ کی "نسخہ ہائے وفا” بھی الگ سے سنبھالی ہوئی ہے۔ قراۃالعین حیدر کی "آگ کا دریا” جو کہ بڑی خستہ حالت میں ہے، زبردستی پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ گو کہ کامیابی ابھی تک نہیں ہوئی لیکن کوشش جاری ہے۔ "اے عشقِ جنوں پیشہ” کے نام سی بھی ایک کتاب موجود ہے جو کہ احمد فراز کی ہے، جس پر لکڑہارے کی تصویر بنی ہے۔ لکڑہارے کے بائیں ہاتھ میں لکڑیاں اور سازو سامان جبکہ دائیں ہاتھ میں ایک پھول ہے۔ کتاب اور تصویر یقینی طور پر دلچسپ ہیں۔ احمد ندیم قاسمی جس طرح میرے دل میں اپنی جگہ رکھتے ہیں، ویسے ہی یہ ممکن نہیں کہ الماری میں ان کی جگہ نہ ہو۔ ان کی ایک کتاب جس کا عنوان "گھر سے گھر” ہے، موجود ہے۔

انگریزی زبان سے مجھے چڑ ہے لیکن جمہوری سوچ کی وجہ سے انھیں بھی جگہ دے رکھی ہے۔ جو کہ شاید برائے نام ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں جمہور بھی تو برائے نام ہے ناں۔ اب آپ ہی بتائیے۔ ان تمام لوگوں کی موجودگی میں ڈرتا ہوں لکھوں تو کیا؟ اور لکھنے بیٹھوں، تو پھر نظر شیلف پر جا رکتی ہے اور سب کچھ رک سا جاتا ہے۔ قلم بھی، ذہن بھی اور میں بھی۔