کامیابی کسی کو میراث میں نہیں ملتی۔ یہ انہیں ملتی ہے جواس کے لیے بھر پور محنت کرتے ہیں۔ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک دردناک کہانی ہوتی ہے اور ہر دردناک کہانی کا اختتام کامیابی ہوتا ہے۔ بڑے بڑے لوگ دکھوں، مصیبتوں اور مسائل کا سمندر عبور کرکے منزل تک پہنچے، جو دلبرداشتہ ہو کر اپنی جد و جہد ترک کرکے اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیتے ہیں، وہ پھر ساری عمر قسمت ہی کو کوستے رہتے ہیں۔ آج کے بڑے بڑے بزنس مین ایک وقت کی روٹی اور سونے کے لیے چارپائی کو ترستے تھے، مگر انہوں نے محنت بھرپور کی اور آج ان میں سے کوئی ملک ریاض ہے، تو کوئی صدر الدین ہاشوانی۔
اسی طرح ہماری فلم انڈسٹری کے وہ کامیاب ہیرو جنہیں سٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، مگر اپنی لگن اور محنت کی وجہ سے جب وہ کامیاب ہوئے، تو سلطان راہی اور بدر منیر کہلائے جن کے جانے کے بعد واقعی فلم انڈسٹری یتیم ہوگئی۔
آج چوں کہ پشتو سنیما کے پہلے ہیرو، ممتاز فلمی اداکار بدرمنیر کی 11ویں برسی ہے، 11 اکتوبرکا دن اسی حوالہ سے منایا جاتا ہے آج پھر انہی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ بدر منیر ہفتے کی صبح 11 اکتوبر 2008ء کو انتقال کرگئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 68 برس تھی۔
بدر منیر 1945ء میں ضلع سوات کے سیاحتی مقام مدین کے نواحی گاؤں شاگرام میں مولوی یاقوت خان کے گھر پیدا ہوئے۔ محنت مزدوری کی غرض سے وہ کراچی چلے گئے، جہاں پر وہ بعد ازاں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ 1970ء میں پشتو زبان کی پہلی فلم یوسف خان شیر بانو میں بطورِ ہیرو جلوہ گر ہوئے اور پہلی ہی فلم میں اپنے فن کا لوہا منوا کر پشتو فلم انڈسٹری کے صدا بہار ہیرو بنے۔ انہوں نے اپنی فنی زندگی کے دوران میں 750 سے زائد پشتو، اُردو اور پنجابی فلموں سمیت ایک انگریزی فلم میں بھی کام کیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سنگلاخ پہاڑوں سوات کے پتھریلے علاقے شاگرام مدین کے پیش امام یا قوت میاں کے گھر میں پیدا ہونے والا بدرے یعنی دنیامیں بین الاقوامی شہرت یافتہ اور پشتو فلم انڈسٹری میں ایک ایسا نام بن کر سامنے آیا جو تعلیم حاصل کیے بغیر پاکستان فلم انڈسٹری پر 41 سال سے راج کرتا چلا آرہا ہے بدرمنیر کا نام ہے۔ محنت، انہوں نے صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر کام کیا اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ بدرے سے بدرمنیر بن گیا، انہوں نے اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کراچی کی سڑکوں پر پتھر بھی کوٹے، بیرہ گیری بھی کی اور کئی مہینوں تک ٹائروں کو پنکچر بھی لگائے۔
بدرمنیر نے اپنی ایکٹنگ کا شوق پورا کرنے کے لیے ہمت نہیں ہاری۔ بغیر ٹکٹ ٹرین میں بھی پکڑے گئے۔ فلمی کئیریر کی شروعات میں اس وقت کے ہیروز کے ہاتھوں سازشوں کا شکار بھی ہوئے، آخرِکار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور انڈسٹری کا چمکتا ہوا ستارہ بن گئے۔
بدرمنیر کا اپنی 41 سالہ فنی کیریئر میں کسی بھی ہیروئن کے ساتھ کوئی بھی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ انہیں پاکستان میں سب سے زیادہ یعنی 750 فلموں میں کام کرنے کا اعزازبھی حاصل تھا۔ 1966ء سے لے کر 2007ء تک کوئی بھی ایساسال خالی نہیں گزراجس میں بدرمنیر کی کوئی فلم ریلیز نہ ہوئی ہو۔
بدر منیر جن کے پاس ہر قسم کے اعزازات ہیں۔ تین فلموں کی ہدایتکاری بھی کی ہے جب کہ 15کے قریب فلموں کی پروڈیوسر بھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دو فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ نمی، مسرت شاہین اور شہناز خان جسے خوبصورت چہرے فلم انڈسٹری کو دیے۔
بدرمنیر نے ہر قسم کے کردار اد اکیے۔ ان کو پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کا اعزاز بھی حاصل ہے جب کہ اولین پشتو فلموں میں ہیرو کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 41 سال فلم انڈسٹری پر راج کرنے والا فلموں کا لیجنڈ اسٹار بدر منیر 68 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ مرحوم نے اپنی فنی کئیریر کا آغاز اُردو فلم ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ سے کیا لیکن شہرت اسے ہدایت کار عزیز تبسم کی پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ سے ملی۔ اداکار نے اپنے کیرئیر میں سات سو کے لگ بھگ اُردو، پنجابی او رپشتو فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری ہدایت کار لیاقت علی خان کی پشتو فلم 2007ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
مرحوم 1966ء سے لے کر 2007ء تک یعنی 41 سالہ کیرئیر میں اداکار رہے۔ ٹوٹل 750 فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں 400 پشتو، 85 اُردو، 31 پنجابی، 11 سندھی اور ایک ہندکو کی فلم شامل ہیں۔ ان فلموں میں 382 رنگین ہیں جب کہ 144بلیک اینڈ وائٹ اور 52 سنیما اسکوپ شامل ہیں۔
بدر منیر نے 53 ہیروئینز کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا جو کہ ایک الگ ورلڈ ریکارڈ ہے جب لپ ولن میں نعمت سرحدی کے ساتھ 314 فلموں میں جلوہ گر ہوئے۔ یہ بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے جسے کبھی توڑا نہیں جاسکتا۔ 1966ء تا 2007ء ہر ہدایت کار فلمساز اداکاراور اداکارہ کے ساتھ کام کیا ہے جب کہ یہ ریکارڈ کسی اور اداکار کی ساتھ نہیں۔
بدرمنیر نے بطورِ ہیرو 435 فلموں میں کام کیا ہے۔ 67 فلموں میں بطورِ مہمان اداکار کام کیا۔ اس کے علاوہ 160 فلموں میں ٹائٹل کا کردار ادا کیا ہے۔ بدرمنیر کی 7 فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، 61 نے پلاٹینیم جو بلی، 18 نے گولڈن جوبلی اور 56 نے سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا ہے جو آج تک کسی اور کے لیے ناممکن ہے۔
بدرمنیر کی 200 فلموں نے اے کلاس بزنس کیا۔ 101 نے بی کلاس اور 140 فلمیں ناکام ثابت ہوئیں۔
بدرمنیر خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ چاہے ملک قدرتی آفات کا شکار ہو یا کوئی اور وجہ ہو، وہ خود میدا ن میں آکر امدادی کاموں کے لیے چندہ مہم چلاتے تھے۔
90ء کی دہائی میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ملک کے موجودہ وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے کینسر ہسپتال کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا میں چندہ مہم چلائی، تو اس وقت بدرمنیر نے ان کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر چندہ دیا۔ اس کے علاوہ اسی دور میں لاہور کے ہولناک سیلاب سے متاثرین لوگوں کی امداد کے لیے بھی پورے صوبے میں چندہ مہم چلائی تھی۔
بدر منیر کو ان کی فلمی زندگی میں بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 750 فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی اعلا کارکردگی پر انہیں صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا، جو انہیں 23 مارچ 2009ء کو ملنے والا تھا، تاہم وہ صدارتی ایوارڈ لینے سے قبل ہی دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ 41 سالہ فلمی کیرئیر میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ سب سے زیادہ فلمیں انہوں نے یاسمین خان اور مسرت شاہین کے ساتھ بنائیں۔ ولن نعمت سرحدی کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول رہی۔
بدر منیر کی اہم فلموں میں ’’یوسف خان شیر بانو‘‘، ’’دیدن‘‘، ’’آدم خان درخانئی‘‘، ’’ناوے د یوے شپے‘‘، ’’شپونکے‘‘ اور ’’ٹوپک زما قانون‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے وحید مراد، محمد علی، سدھیر اور سلطان راہی کی طرح بدرمنیر کے مخلص پرستار بھی ہر سال ان کی برسی مناتے ہیں۔ اللہ تعالا سب کے درجات بلند فرمائے، آمین!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔