شعور و آگہی (تبصرہ)

عبید اللہ سندھی صاحب کی کتاب ’’شعور و آگہی‘‘ اُن کے اور اُن کے رہنما شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب کے افکار کے حوالے سے ایک مختصر، دلچسپ اور مفید کتاب ہے۔ اس کے مطالعے کی بنیاد پر مجھے مذکورہ حضرات کے مکتبِ فکر کی کچھ باتیں بہت پسند آئیں جو آپ سے شیئر کرتا چلوں۔
پہلی بات یہ کہ جہاں تک میرا مطالعہ اور مشاہدہ ہے، ہمارے ہاں رائج باقی مکاتبِ فکر کے مقابلے میں اس حلقہ نے زیادہ حقیقت پسندی اور فراخ دلی سے یورپ کی مادی اور فنی ترقی کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اپنے ہاں بھی اسی نوعیت کی ترقی کی ضرورت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ کسی حوالے سے کامیاب قوم کے ساتھ بغض و عناد رکھ کر اور اس کی ترقی سے انکار کر کے اس قوم کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ اُلٹا اس کو مزید سبقت لینے کے لیے آسانی فراہم ہو جاتی ہے۔ محض دنیا کو فانی قرار دے کر مادی ترقی کی اہمیت سے انکار کرنا اسلامی تعلیمات اور حقیت پسندی کا نہیں بلکہ نااہلی اور کاہلی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ کھلے دل سے دوسروں کی کامیابیوں اور اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرلیا جائے اور اس کے بعد اپنی توانائیاں بھی اچھی جگہ پر مرکوز کر لی جائیں۔
ہمارے دانشور اور تاریخ دان، ہماری تاریخ کے مختلف کرداروں کی زندگیوں کے انتہائی ذاتی پہلوؤں کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے آئے ہیں کہ اجتماعیت کا تصور کہیں گم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم تاریخ کی وادی میں جھانکتے ہیں، تو ہماری نظروں کے سامنے مختلف ادوار میں رائج اجتماعی نظاموں کی بجائے چند گنے چنے افراد کی زندگیوں کی وہ جھلکیاں گھومنے لگتی ہیں جن کا اجتماعی نظم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نظام اور انقلاب برپا کرنے میں بے شمار انسانوں کا خون پسینا شامل ہوتا ہے لیکن سہرا صرف چند افراد کے سر سجا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس شاہ ولی اللہ صاحب اجتماعیت پر بڑا زور دیتے ہیں۔ ان کی دلچسپی یہ جاننے میں ہوتی ہے کہ ایک فرد کی وجہ سے معاشرے اور رائج الوقت نظام پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ ان کے نزدیک اسلام ایک بین الاقوامی انقلاب برپا کرنے کے لیے آیا ہے اور اس کا دامن بہت وسیع ہے۔
روٹی، کپڑا اور مکان ہر ذی روح کی انتہائی بنیادی ضروریات ہیں۔ زندگی کے تسلسل کا دار و مدار ان ہی اشیا پر ہے۔ یہ نہ ہوں، تو زندگی کا سفر ہی رک جائے۔ اسی لیے جب تک ان لوازمات کی تکمیل نہیں ہوجاتی، انسان زندگی کے مقصد اور اس میں کچھ کر گزرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ معیشت وہ شے ہے جس کے ذریعے ان سہولیات کی فراہمی ممکن ہو جاتی ہے۔ شاہ ولی اللہ منصفانہ اقتصادی نظام کے نفاذ پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک ایک ریاست کا اقتصادی نظام ٹھیک نہیں ہوجاتا، تب تک وہاں کے لوگوں سے اعلا انسانی اقدار کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جس ریاست میں کمانے والے اور ہوں اور کھانے والے اور، وہاں انقلاب ناگزیر ہو جاتا ہے۔
کارل مارکس کی پیدائش شاہ ولی اللہ کی وفات کے 55 سال بعد ہوئی تھی۔ دونوں کے نظریات میں بنیادی اختلافات ہیں لیکن دونوں چوں کہ اقتصادی امور پر خاص توجہ دیتے ہیں، اس لیے اگر آپ مکمل یا کسی حد تک مارکسسٹ ہیں اور یا ویسے ہی اقتصادیات میں دلچسپی لیتے ہیں تو میرا یقین ہے کہ آپ کو یہ کتاب اور شاہ ولی اللہ صاحب کے افکار دلچسپ لگیں گے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔