تحریر: افشاں نور
اس صدی کے ابتدائی سالوں میں مسلم مشرقی افریقہ میں ایک لڑکا جو عجیب و غریب خواب دیکھتا ہے، اُسے اس کے چچا کے لیے کام پر لے جایا جاتا ہے جو ساحل پر ایک خوشحال تاجر ہے۔ پہلی چیز جو وہ سیکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ تاجر اس کا چچا نہیں ہے: یوسف کو اپنے والد کا قرض ادا کرنے کے لیے غلامی میں بیچ دیا گیا ہے۔ یہ زندگی کی ایک سخت تربیت کا آغاز ہے، جو کہ اتفاقیہ مہربانی اور خوب صورتی کی جھلک سے تاؤ کھا جاتی ہے۔ بنا سوال کیے، صرف اس کی محبت کے لیے، یوسف اپنے آقا کا باغ سنبھالتا ہے، جو اُونچی دیواروں کے پیچھے چھپا ہوا ہے جسے چار ندیوں سے پانی دیا جاتا ہے۔ باغ اور اس کے باہر کی عظیم دنیا دونوں یکساں طور پر پُراسرار ہیں۔ دنیا ایک شان دار مگر خطرناک جگہ ہے جسے صرف مذہب مہذب بناتا ہے۔ وحشیانہ پن زیرِ سطح اور ملک کے اندرونی حصے میں گھات لگائے بیٹھا ہے جہاں کافر لوگ رہتے ہیں۔ نا معلوم دنیا کے اس پار کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں: سمندر جو جم جاتے ہیں، دیوار جو دیوقامت یاجوج ماجوج نے بنائی ہے اور اپنے آگ کے دروازے کے ساتھ زمینی جنت۔ وقتاً فوقتاً خوفناک اور مطالبہ کرنے والے اجنبی پیکر اس شان دار، جزوی حقیقی اور جزوی طور پر تصوراتی پردے کو پار کرتی ہیں۔ وہ سب کچھ چاہتے ہیں اور سمجھ سے باہر نظر آتے ہیں۔ انہیں ’’یورپین‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جب یوسف 17 سال کا ہوتا ہے، وہ اپنے مالک کے ساتھ ایک کٹھن نجی تجارتی منصوبے پر جاتا ہے۔ یہ سفر جو بیماری، جنگلی جانوروں اور مقامی حکمرانوں کے محصول کی صورت ایک شان دار، رزمیہ تناسب کو قبول کرتا ہے، ایک قابلِ گھمنڈ عمل بن جاتا ہے۔ تاہم جب وہ پہنچتے ہیں، تو مہم کی تباہی کا کیا ہوگا؟ خواب دیکھنے والا یوسف، آگ کی دیواروں اور ہنگامہ خیز پانیوں کو دیکھتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کی حفاظت کرتے ہیں۔ یا شاید جنت وہ باغ ہے جس کی اس نے دیکھ بھال کی ہے؟ جب وہ اس باغ اور اپنے مالک کے گھر لوٹتا ہے، تو اسے ان کا ناخوش گوار راز پتا چلتا ہے۔ اس میں اس کے لیے خطرہ ہے لیکن یہ اسے ایک ایسی سمت میں مایوس کن انتخاب کرنے کے لیے آزادی دیتا ہے جس کے لیے کتاب نے ہمیں پُراسرار طور پر تیار کیا ہے۔
قارئین، عبدالرازق گرناہ کا یہ چوتھا ناول، کئی پرتوں پر مشتمل، پُرتشدد، خوب صورت اور عجیب ہے۔ اس کے جوہر کو کم کیے بغیر اس میں افسانہ، لوک کہانی، بائبل اور قرآنی روایت، کونریڈ کی پُراثر ہلچل کے مختلف عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کی بہت سی کامیابیوں میں سے ویران معیشت اور باریک بینی سے طے شدہ فاصلہ جس کے ساتھ یہ ’’نوآبادیات‘‘ کی برائیوں کو اُبھارتا ہے، کم نہیں ہے۔
تحریر میں کچھ بے ڈھنگے اقتباسات ہیں۔ گویا مصنف کی سماعت نے اس کا بر وقت ساتھ نہیں دیا۔ اور یہ خرابیاں اس نظم وضبط کی وجہ سے زیادہ حیران کن ہیں جو دوسری صورت میں افریقہ اور نامعلوم طاقت کے بارے میں شاعرانہ اور واضح طور پر پُر سحر کتاب کو کنٹرول کرتا ہے ۔
(عبد الرزاق گرناہ کے انگریزی ناول "Paradise” پر ’’انیتا میسن‘‘ کے انگریزی تبصرے کا اُردو ترجمہ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔