بندۂ مزدور کے اوقات

بہت عرصہ پہلے شاید علامہ اقبال نے کہیں لکھا تھا کہ
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
آج علامہ کا یہ شعر تب دماغ میں آیا جب مجھے اپنی فلاحی کمیٹی کے ایک رکن محترم راجہ جاوید کیانی آف ہرکہ نے ایک خط دیا۔ پہلے اس خط کا مطالعہ کریں پھر مَیں اپنی گذارشات کروں گا۔ یہ خط بھٹا خشت پر کام کرنے والے ایک مزدور کا ہے کہ جس کی ایک کاپی اس نے ہماری کمیٹی کو بھی دی۔ خط کا متن یہ ہے:
جناب وزیر اعظم پاکستان!
امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔ گذارش ہے کہ ہمارا تعلق اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والوں میں سے ہے۔ ایک عام اندازہ کے مطابق پورے پاکستان میں دس ہزار سے زیادہ اینٹوں کے بھٹے ہیں۔ ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی کم از کم تعداد 3 ملین سے زائد ہے۔ ملک کی ترقی اور کنسٹریکشن انڈسٹری اور ملک کی معیشت میں ہمارا کرداری کلیدی ہے، لیکن ہمارا کوئی پرسانِ حال ہی نہیں۔ حکومت نے ملک میں ہر ادارہ میں اجرت کی ایک اوسط متعین کی ہوئی ہے۔ وقت بوقت اس میں اضافہ بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں کہ جو مکمل ٹھیکیدار کے رحم و کرم پر ہیں، جو ہمیں پندرہ سال پہلے کی اجرت دے رہا ہے۔ جب کہ اینٹ کا ریٹ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ چوں کہ ہماری تنخواہ میں ایک پیسا کا اضافہ نہیں کیا جاتا، اس سے ہم کو مجبوراً روز مرہ اخرجات واسطے ٹھیکیدار سے قرض لینا پڑھتا ہے، جو کہ ہمیں نسل در نسل ٹھیکیدار کا غلام بناتا چلا جاتا ہے۔ تقریباً ہر خاندان پانچ سے چھے لاکھ کا مقروض ہو جاتا ہے۔ یوں مذکورہ رقم ختم ہو،نہ ہماری غلامی ہی ختم ہو۔ سو ہم حکومتِ پاکستان سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حالات پر رحم کرے اور ہماری اجرت طے کرے، جس میں وقت و حالات کے مطابق کمی بیشی ہو۔ تاکہ ہم بھی ایک آزاد شہری کی زندگی بسر کرسکیں۔ ہماری احکامِ بالا سے درخواست ہے کہ ہماری پریشانیوں اور مشکلات کا خیال رکھا جائے۔
از مزدور برکس انڈسٹری، راولپنڈی۔
یہ خط میں نے تقریباً لفظ بہ لفظ لکھ دیا ہے۔ یہ خط ملنے کے بعد مَیں نے اپنی کمیٹی اور کچھ سماجی شخصیات کو ساتھ لے کر جب خود جائزہ لیا، تو بہت سے حیران کن انکشافات ہوئے۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’تم انسانوں کو کس طرح غلام بنا سکتے ہو کہ جب ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا ہے۔‘‘ اور ایک مشہور قول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم کا ہے جو ہمارے وزیراعظم ہر تقریر میں فرماتے ہیں کہ ’’کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔‘‘ لیکن آپ بھٹا خشت کے طریقۂ کار کا جائزہ لیں، تو دین، عقیدہ، اخلاقیات بلکہ انسانیت بھی چھوڑیں، یہاں تو حیاتیاتی ضمیر بھی تسلیم نہ کرے۔ اب یہاں ہوتا کیا ہے…… ایک ٹھیکیدار، ایک خاندان جو کہ زیادہ تر غریب ترین ہوتا ہے، سے ایک ڈیل کرتا ہے اور پھر وہ اس کو اپنے بھٹا خشت کے مالک کے حوالہ کر دیتا ہے۔ بظاہر یہ ’’مین پاؤر سپلائز‘‘ کا سادہ سا اصول ہے، لیکن واضح فرق یہ ہے کہ یہاں کوئی قانون طے نہیں کیا جاتا، بلکہ بھٹا مالکان طے شدہ رقم ٹھیکیدار کو دیتے ہیں، یا ٹھیکیدار کی ہدایت پر مزدوروں کو۔ اب یہ رقم اتنی کم ہوتی ہے کہ ایک عام خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کرسکتی، پھر دوسری چھوٹی موٹی ضروریات۔ سو یہ لوگ مجبوراً ٹھیکیدار سے رابطہ کرتے ہیں اور شروع شروع میں تو ٹھیکیدار ایڈوانس کے نام پر بہت خوش دلی سے ان کی ضرورت پوری کرتا ہے، لیکن مزدور کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس کھائی میں گرنے جا رہا ہے۔ اب وقت کے ساتھ اس ایڈوانس کے نام پر دی گئی رقم میں جب ایک معقول حد تک اضافہ ہو جاتا ہے، تو تب ٹھیکیدار اس خاندان کو عملاً غلام بنا لیتا ہے۔
اب ظاہر ہے جب ایک غریب دو تین لاکھ کا مقروض ہوگا، تو پھر اس کے پاس آپشن کیا رہ جاتا ہے؟کچھ نہیں۔ اب وہ پورا خاندان اس ظالم ٹھیکیدار کا نسل در نسل محکوم اور پھر مظالم صرف کام تک نہیں رہتے، بلکہ ٹھیکیدار صاحب دوسرے کئی طریقوں سے اس خاندان کا استحصال کرتے ہیں۔ اپنے ذاتی کام کروانا، بوقتِ ضرورت بھٹا خشت کے مالک کو بلیک میل کرنا، بلکہ اس مظلوم خاندان کی انا اور عزت تک کا کھلواڑ کرنا وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ پھر نظام کی وجہ سے چائلڈ لیبر کا بے رحم استعمال کیا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کو مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے، اس پر کسی حکومت کی توجہ ہے نہ دلچسپی۔
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے دعویدار، انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اس ظلم پر خاموش ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان بچے نے اس پر آواز اٹھائی تھی لیکن اس کو قتل کروا دیا گیا۔ یہ کیسا نظام ہے کہ انسانی عقل اور ہمدردی سے ماروا مکمل ایک ظلم و استعداد پر مبنی ہے۔
یہاں ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس مسئلہ پر ایک اعلا سطحی کمیشن بنائے، جو اس کے ایک ایک پہلو کی تحقیق کرے اور اس کے بعد اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر مؤثر قانون سازی کرے۔ اس جبر و ظلم کو کہ جو شاید فرعون کے دور میں بھی نہ تھا، اگر ختم نہ بھی کرسکیں، تو کم از کم اتنا کر دیں کہ اس میں واضح کمی نظر آئے۔ اس پر قانون سازی قطعی مشکل یا نا ممکن امر نہیں۔ آپ کسی بھی علاقہ میں جو ’’مین پاؤر سپلائرز‘‘ کمپنیاں ہیں، ان سے رابطہ کریں اور ان کے طریقۂ کار پر غور کرلیں۔ پھر اس کو سامنے رکھ کر ایک تجویز شدہ مسودہ تیار کرلیں۔ اس کے بعد بے شک انسانی حقوق کی تنظیموں، بھٹا خشت کے مالکان کی یونین اور ٹھیکیداروں سے بھی رائے لے لیں۔ سب سے بڑھ کر بھٹا خشت میں کام کرنے والے مزدوروں کے انٹرویوز کر لیں۔ پھر ایک مشترکہ اور قابل عمل مسودہ تیار کرکے اس کو قانون کی شکل میں ڈھال دیں۔ لیکن اس مسئلہ پر سب سے ذیادہ ذمہ داری بحیثیتِ قوم ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ جیسے کہ ہم نے اوپر لکھا کہ ملالہ یوسف زئی اور مختار مائی واسطے چیخنے والی آوازیں یہاں خاموش کیوں ہیں؟ بے شک میں ملالہ یوسف زئی کو پاکستان کی قابلِ فخر دلیر بیٹی مانتا ہوں، مختار مائی سے ہم دردی ہے، لیکن بھٹا خشت کہ اس نظام میں کتنی ہی مختار مائی اور ملالہ یوسف زئی کچلی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف عافیہ صدیقی اور لال مسجد کی بچیوں کے ہمدرد بھی خاموش ہیں۔ ہم ان کے اس جذبہ کی قدر کرتے ہیں جو وہ عافیہ صدیقی یا لال مسجد کی بچیوں کے لیے رکھتے ہیں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عافیہ صدیقی بے شک قید ہے، لیکن امریکہ کی جیلوں میں انسانی اقدار بہت حد تک قائم ہیں، مگر جو گوانتا نامو بے ہماری بھٹا خشت کی انڈسٹری میں ہے، وہ بہت بھیانک تین ہے۔یہاں معلوم ہی نہیں کتنی عافیہ صدیقیاں سسک سسک کر روز جی رہی ہیں، روز مر رہی ہیں۔ وہاں عافیہ صدیقی قیدی ہے، یہاں بے شمار عافیہ صدیقیاں غلام ہیں…… مکمل غلام۔
پھر ہمارا میڈیا معذرت کے ساتھ انتہائی شرمناک رویہ کا شکار۔ لاہور کی ایک ٹک ٹاکر واسطے متحرک ہے۔ وزیرِ اطلاعات سے اشتہارات واسطے بات کرنے میں اول ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ذاتی حیثیت میں خواہ وہ ڈاکٹر ہود بھائی ہوں، خواہ مصنف خلیل الرحمان ہو، خواہ ماروی سرمد ہوں، خواہ زید حامد۔ ان کی ذاتی رائے پر پروگرام ہوتے ہیں، لیکن اس طرف نہ کسی کی توجہ ہے نہ احساس۔ کیا ہم من حیث القوم اتنے ظالم اور بے حس ہو سکتے ہیں، یا ہمیں اتنا بے حس ہونا چاہیے؟ آپ دنیا بھر میں چیک کرلیں، صومالیہ اور اتھوپیا سے مالدیپ تک۔ حتی کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ میں موجود قبائلی یا جنگلی نظام میں بھی ایسا عمل آپ کو نہیں ملے گا۔ تاریخ میں جو ادوار غلامی کے رہے، ان میں بھی یہ صورتِ حال نہ تھی۔ وہاں بھی ایک شخص طے شدہ شرائط پر غلام ہوتا تھا، پورا خاندان نہیں…… لیکن یہاں خاندان کیا بلکہ پوری نسل غلامی میں لی جا رہی ہے۔ ہمارے بزرگ ہندو بنیا کی بات کرتے ہیں۔ وہ بھی طریقہ سے کسی شخص کی جائیداد پر تو قبضہ کر لیتے تھے، لیکن اس طرح تو نہیں تھا۔ سو ہم ’’آزادی‘‘ کے ان صفحات سے پوری قوم سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم و جبر کے نظام کے خلاف پوری طاقت سے کھڑی ہو جائیں۔ یہ نہ صرف ہمارا دینی فرض ہے بلکہ انسان ہونے کے ناتے ہمارا اخلاقی قرض بھی ہے۔ اگر ہم سے ہر شخص جس کو اس ظلم کا علم ہو، نہ بولے، تو نہ صرف وہ آخرت میں لائقِ جہنم ہوگا بلکہ اس دنیا میں بھی اس کو انسان کہلانے کا حق بالکل نہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔