الیکٹرانک ووٹنگ مشین بارے چند تجاویز

ہمارے ملک کا ایک المیہ (بلکہ سانحہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا) یہ ہے کہ یہاں خالصتاً تکنیکی و انتظامی معاملات کو سیاست کی نذر کیا جاتا ہے۔ پھر بجائے اس کے کہ اس کو میز کے ارد گرد بیٹھ کر بات چیت سے حل کیا جائے، ہم تاثر ایسا دیتے ہیں جیسا یہ کوئی ذاتی انا کا مسئلہ ہو۔ ڈیم، سڑکیں، صنعتی یونٹ، نئے صوبوں کا اجرا حتی کہ نئے ضلعوں اور تحصیلوں کا بننا تک ہماری سیاست کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ایک جامع اور مکمل تحریر کی ضرورت ہے۔
آج ہم ان میں سے ایک خالصتاً تکنیکی اور بالکل نئے مسئلہ پر بات کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے ووٹنگ کا طریقۂ کار۔ ملک کے اعلا سیاسی ایوانوں سے لے کر میڈیا تک بلکہ اب تو سوشل میڈیا کی وجہ سے سڑکوں اور تھڑوں تک یہ بحث آگئی ہے۔ خاص کر سیاسی کارکنان بس اپنی جماعت کا مؤقف سامنے رکھ کر زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ دلائل کا ایک سیلاب ہے اور توجیح کا سونامی، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک بہت بڑی اکثریت کو نہ اس مسئلہ کا ادراک ہے نہ معلومات۔ پھر بھی بحث اپنے لا محدود سفر پر رواں دواں ہے۔
ایک طرف حکومت اور حکومتی ہم درد، خاص کر اس کے کارکن ’’انصافین‘‘ کی یہ ضد ہے کہ آئندہ الیکشن بہر صورت اس ووٹنگ مشین سے ہوں گے۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کہ جس نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہم نے یہ ہونے نہیں دینا۔ گو کہ ہم اصول کی بنیاد پر حکومت کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں کہ بہرحال اب دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ووٹنگ کا پرانا طریقۂ کار بدلنا ہی ہے۔ دنیا نے ’’ای ٹیکنالوجی‘‘ ہی پر چلنا ہے۔ سو ہم ابھی تک کیوں ٹھپا نظام کا حصہ رہیں کہ جو وقت طلب بھی ہے اور اس میں بے ایمانی اور دندھلی کا خطرہ بھی۔ اب اگر الیکشن کو فری اور صاف و شفاف بنانا ہے، وقت کی بچت کرنی ہے، تو پھر ہم کو یہ نیا سسٹم بنانا ہی ہوگا۔
دوسری طرف حزبِ اختلاف کی طرف سے اس کی مخالفت کی وجہ نسبتاً زیادہ وزن رکھتی ہے ۔ اس کا یہ مؤقف ہے کہ اصولی طور پر تو اس کو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جس طرح حکومت زور زبردستی سے اس کو ہر صورت نافذ کرنا چاہتی ہے، وہ اس ساری تجویز کو ہی براہِ راست متنازعہ بنا رہی ہے۔ حزبِ اختلاف کی طرف سے کچھ درجِ ذیل اعتراض اٹھائے جا رہے ہیں۔
٭ یہ مشین الیکٹرانک یعنی بجلی سے چلتی ہے جب کہ ہمارے ملک کے ایک بڑے حصہ میں بجلی موجود ہی نہیں۔ جہاں ہے، وہاں بھی اس چیز کی گارنٹی نہیں کہ دن بھر بجلی بحال رہے گی۔ لوڈ شیڈنگ نہ ہوگی یا کسی تکنیکی خرابی کا باعث نہ بنے گی۔ ٭ ان کا یہ مؤقف ہے کہ یہ مشین مکمل طور پر ماہرین سے پاس شدہ نہیں…… اور نہ اس کو کسی بین الاقوامی ادارے سے منظور کروایا ہی گیا ہے۔
٭ اس مشین کو بنانے والے سائنس دانوں کا کوئی سی وی سامنے نہیں لایا گیا۔
٭ اس مشین کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی عام عوام کہ جن کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے کو ایک دم سے استعمال کرنا ممکن ہی نہیں۔
سو اس بنیاد پر حزبِ اختلاف کا یہ خیال ہے کہ چوں کہ حکومت کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی کارگردگی انتہائی مایوس کن ہے اور عوام آئندہ الیکشن میں اس کو مکمل مسترد کر دیں گے۔ اس وجہ سے وہ اس خود ساختہ مشین کی آڑ میں دھاندلی کا منصوبہ بنا چکی ہے، کہ جس کو بہرصورت ناکام بنایا جائے گا۔ بلکہ ن لیگ کی طرف سے تو یہ دھمکی بھی آئی ہے کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلا، تو پھر ہم انگلی ٹیڑھی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ عین الیکشن والے دن اس مشین کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اس مشین کے استعمال پر نہ صرف سول سوسائٹی کی اکثریت معترض ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ بہت ترقی یافتہ ممالک کہ جہاں اس مشین کی کاملیت تصدیق شدہ ہے، وہاں پر بھی اس نظام پر سوالات اُٹھ رہے ہیں، تو پاکستان جیسے ملک میں یہ تجربہ…… وہ بھی بنا کسی تیاری کے کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟ جب کہ اس پر ملک کا اہم ترین ادارہ کہ جو براہِ راست اس تمام طریقۂ کار کو نافذ کرتا ہے اور وہی ذمہ دار ہوتا ہے (یہاں میری مراد الیکشن کمیشن ہے) نے بھی اس مشین پر اعتراض کر دیا ہے بلکہ بہت حد تک اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے اعتراضات اتنے واضح ہیں کہ حکومت نے بذریعہ کابینہ ارکان الیکشن کمیشن پر براہِ راست نہ صرف الزامات کا ڈھیر لگا دیا ہے بلکہ ایک وفاقی وزیر نے تو الیکشن کمیشن کو آگ لگا دینے کی بات کی ہے، جس سے حزبِ اختلاف کے مؤقف میں مزید سختی آئی ہے۔
اس تمام تر صورتِ حال میں ہم حکومت کو چند تجاویز دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت واقعی اس میں سنجیدہ ہے اور کسی قسم کی بدنیتی نہیں رکھتی، تو پھر وہ یقینا ہماری تجویز بلکہ دوسرے تمام غیر جانب دار حلقوں کی تجاویز پر غور ضرور کرے گی۔
ہم یہ تحویز کرتے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں حکومت اس کو کسی بھی کمیونٹی سینٹر میں نمائش کے لیے پیش کرے اور ملک بھر کے عوام اور میڈیا کو دعوت دے کہ وہ خود آکر اس کا جائزہ لیں۔ حکومت خود بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے سائنس کے مضامین کے طلبہ و اساتذہ کو دعوت دے کہ وہ آکر چیک کریں۔ پھر اس کو مختلف بین الاقوامی ماہرین کے سامنے رکھے اور ان سے اس پر تحریری طور پر رائے لے۔ پھر اس کو تمام رپورٹس کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے میڈیا کی موجودگی میں پیش کرے۔ اس کے بعد تمام رپورٹس ساتھ لگا کر الیکشن کمیشن میں رکھے۔ پھر جب یہ مشین ہر طرف سے منظور ہو جائے، تو روزانہ کی بنیاد پر اس کو نیشنل میڈیا میں نہ صرف مشتہر کرے بلکہ اس کو چلانے کا طریقہ خواہ کتنا ہی سادہ کیوں نہ ہو، عوام کو بتائے۔ اس کے بعد اس کو چھوٹے پیمانے پر جیسے پارلیمنٹ میں ووٹنگ مطلب سپیکر اور ڈپٹی سپیکر وغیرہ کا انتخابات ہوتا ہے، میں تجرباتی طور پر استعمال کرے۔ دوسرے مرحلے میں اس کو مختلف اداروں کی یونین کے انتخابات وغیرہ میں استعمال میں لائے۔ اگر یہ مشین ہر معیار پر پوری اُترے، تو پھر اس کو اول ضمنی انتخابات، پھر چند بڑے شہروں کی کچھ مخصوص نشستوں پر استعمال کرے۔ آخر میں اس کو عام انتخابات میں استعمال کرنے کی اجازت دی جائے اور ویسے بھی جلدی کس بات کی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ مشین استعمال ہوئی، مرحلہ وار ہوئی۔ ایسے ہی ایک دم نہیں ہوئی۔ اگر اس مکمل پروسیس میں 20 سال بھی لگ جاتے ہیں، تو کوئی حرج نہیں لیکن طریقۂ کار ایسا اپنانا چاہیے کہ اس پر کسی کو اعتراض ہو، نہ شک۔ لیکن جس طرح حکومت اس مشین پر ایک بیانیہ بنا کر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مَیں مکمل دعوا سے کہتا ہوں کہ بے شک حکومت کی نیت صحیح ہوگی۔ حکومت کی کوشش مخلصانہ ہوگی، لیکن اس کو حزبِ اختلاف ہی نہیں، کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔
ویسے بھی منطق کی بات ہے کہ اتنی جلدی جانوروں کی چارہ کاٹنے والی مشین کو عام لوگ نہیں اپناتے، تو اس اہم ترین کام کہ جس سے ملک و قوم کا مستقبل وابستہ ہے، کو کس طرح مان لیا جائے؟ حکومت کو ہم یہ بھی کہیں گے کہ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ جب آپ کی نیت صحیح ہے، دل میں کوئی چوری نہیں، تو پھر سب کچھ عوام کے سامنے لانے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
یہاں پر ہم حکومت سے ایک اور بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ممکنہ حد تک اس مسئلہ کو تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر حل کرے۔ کیوں کہ اگر اس دفعہ یہ مسئلہ سیاست کی نذر ہوگیا، تو پھر سالوں میں حل نہیں ہوپائے گا۔ کیوں کہ کل کو جب کوئی اور حکومت اس پر کام شروع کرے گی، تو ضد میں آکر اس کی بھی مخالفت کی جائے گی اور یہ تاثر دیا جائے گا کہ ہم صحیح کر رہے تھے، یہ غلط کر رہے ہیں۔
سو جنابِ وزیراعظم! براہِ کرم آپ وقت ضائع کیے بغیر فوراً سکرین پر آئیں اور دو ٹوک اعلان کریں کہ جب تک تمام قوم مطمئن نہ ہوگی، ہم اس مشین کو بالکل استعمال نہیں کریں گے۔
ساتھ ہی ہماری اوپر تحریر شدہ تجاویز کی روشنی میں یہ پالیسی بیان بھی دیں کہ سب کو دعوتِ عام ہے! آئیں، مشین کو چیک کریں اور نہ صرف اپنے تحفظات کو کھل کر بیان کریں بلکہ اپنی تجاویز بھی پیش کریں۔ ہم اس پر مکمل ’’قومی یک جہتی‘‘ سے کام کریں گے اور ہر ایک کے لیے اس کو قابلِ قبول بھی بنائیں گے۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔