ریاض خیر آبادی (1853-1934) ایک با ریش اور قادرالکلام شاعر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے زندگی بھر شراب نہیں پی، لیکن مے کشی اور مے نوشی کے بعد سرور کی کیفیتوں کے بارے میں ایک سے ایک شان دار شعر کہا ہے۔ اُن کا ایک مشہور شہر ہے:
جام مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
ویسے تو اُردو شاعری اور خاص طور پر ہماری روایتی غزل میں شراب، مے خانہ، رند، صراحی، جام، پیمانہ، ساقی، سرور و مستی، نشیلے نین، انگور کی بیٹی اور واعظ کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ غالبؔ سے فیضؔ تک شاعروں کی اکثریت کو کھانے سے زیادہ پینے میں دلچسپی رہتی تھی اور ان شاعروں نے شراب کی توصیف میں مبالغہ آرائی کی حد کر دی ہے۔ اس کے مقابلے میں انگریزی کے شاعروں نے شراب کو اس طرح اپنی شاعری کا موضوع نہیں بنایا۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشروں اور خاص طور پر برطانیہ میں شراب کی دستیابی کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔ اس ملک میں بہت اعلا معیار کی وہسکی، وائن، بیئر، واڈکا وغیرہ کشید اور تیار کر کے دنیا بھر میں ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں سکاچ وہسکی کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمانوں کے لیے شراب پینا اور شراب کی خرید و فروخت غیر قانونی ہے۔ صرف غیر مسلم پاکستانیوں یعنی اقلیتوں کی آبادی (بچوں اور خواتین سمیت) 73 لاکھ ہے، جب کہ دو کروڑ سے زیادہ پاکستانی شراب نوشی کے عادی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال اس علت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
1977ء تک پاکستان میں شراب کی خرید و فروخت کا کار و بار پسِ پردہ جاری رہا۔ کیوں کہ ذوالفقار علی بھٹوخود بھی شراب کے رسیااور شوقین تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں ملک کے بڑے شہروں میں بارز (BARS) اور کلبز (CLUBS) قائم تھے، جہاں پینے والوں کے لیے دخترِ رز کی دستیابی کی سہولت موجود تھی، مگر ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ صرف مسلمانوں کے لیے شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی، بلکہ شراب نوشی پر (80) کوڑوں کی سزا بھی لاگو کر دی، لیکن اس کے باوجود شراب نوشی کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں دیسی شراب بنانے اور دیگر نشوں مثلاً ہیروئن وغیرہ کے استعمال میں اضافہ ہوگیا۔
برطانیہ میں ہیروئن کا نشہ کرنا اور اس کی خرید و فروخت سنگین جرم ہے جب کہ پاکستان میں بڑے بڑے پُلوں کے نیچے، قبرستانوں اور دیگر ویران جگہوں پر ہیروئن کا نشہ کرنے والے سرجوڑے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر کوئی ان کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ البتہ شراب نوشی کرنے والوں کے پیچھے سب لوگ ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں۔ حالاں کہ ہیروئن کا نشہ شراب کے نشے سے زیادہ خطرناک ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 8 لاکھ سے زیادہ پاکستانی مسلمان ہیروئن اور 2 کروڑ سے زیادہ شراب کے عادی ہیں جب کہ اور کئی طرح کے خطرناک نشے کرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں ہر سال دیسی اور زہریلی شراب پینے اور ہیروئن کے استعمال سے ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں شراب نوشی اور دیگر نشوں کے استعمال کے رجحان میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کو اس سلسلے میں لوگوں کی آگاہی کے لیے اعداد و شماری جاری کرنے چاہئیں کہ پاکستان میں جو شراب بنتی ہے اور جو شراب امپورٹ کی جاتی ہے، اُسے اگر مسلمان نہیں پیتے، تو وہ کہاں جاتی ہے؟ اور جو شراب غیر قانونی سمگلنگ کے ضمن میں ضبط ہوتی ہے، کیا واقعی اُسے ضائع کر دیا جاتا ہے؟
پاکستان میں نئے سال کی آمد، شادی بیاہ اور عید سمیت خوشی کے کئی تہواروں اور موقعوں پر شراب کی مانگ اور استعمال میں اضافہ قانون نافذ کرنے والے ہر ادارے کے علم میں ہوتا ہے مگر جہاں با رسوخ اور طاقتور لوگ چار دیواری میں شراب کی پارٹی کا اہتمام کریں، وہاں پولیس باہر پہرہ دے رہی ہوتی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، کچھ عرصہ قبل ایک انگریز صحافی نے پاکستان میں ہونے والی نئے سال کی ایک پارٹی کا آنکھوں دیکھا حال قلمبند کیا جسے پڑھ کر اہلِ پاکستان کی منافقت پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس نے لکھا کہ پاکستان میں لوگ شراب انجوائے کرنے کے لیے نہیں بلکہ مت مارنے کے لیے پیتے ہیں۔ جتنی شراب ایک انگریز پورے سال میں پیتا ہے، شراب کی اتنی مقدار پاکستانی مسلمان صرف ایک مہینے میں پی جاتا ہے اور بدقسمتی سے کوئی انہیں اتنی مقدار میں شراب نوشی کے نقصانات سے بھی آگاہ نہیں کرتا۔
پچھلے دنوں ایک اقلیتی رکن نے پاکستانی پارلیمنٹ میں غیر مسلموں کو شراب کے لائسنس جاری کرنے پر پابندی کا مطالبہ کیا، تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت مسلمان اراکین پارلیمنٹ نے کی۔ یہ ہے ہماری وہ منافقت جس پر غیر مسلم ہمارا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ غیر مسلموں نے اپنے حسنِ انتظام سے اپنے معاشروں کو دنیا میں ہی جنت بنا لیا ہے جب کہ ہم مسلمان جنہیں جنت میں شراب کی فراہمی کا یقین ہے، وہ اس دنیا میں ہی شراب و شباب کے مزے لوٹنے اور غل غپاڑا کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔ جو نہیں پیتے، انہوں نے شرابِ طہور اور 72 حوروں کے تصور سے ہی اس دنیا کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔
بہت سے لوگ سود اور شراب کے بارے میں طرح طرح کی تاویلات پیش کرتے ہیں لیکن قرآنِ پاک کی سورہ المائدہ کی آیت نمبر 91 میں اللہ رب العالمین کا واضح حکم ہے کہ اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت پانسے (یہ سب) ناپاک شیطانی اعمال ہیں، سو ان سے بچتے رہنا، تاکہ تم نجات پاؤ۔
جب مسلمانوں کے لیے شراب کو حرام قرار دیا گیا تو اس کے بعد حضور نبی کریمؐ کے ساتھیوں نے یہاں تک کہا کہ اگر کسی میٹھے پانی کے کنویں میں ایک قطرہ شراب کا گر جائے اور پھر اس کنویں سے کوئی گھوڑا پانی پیے تو اس کی سواری بھی حرام ہے۔
غالبؔ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ مسلمان ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں آدھا مسلمان ہوں، شراب پیتا ہوں مگر خنزیر کا گوشت نہیں کھاتا۔ برطانیہ میں بھی شرابی مسلمانوں کی اکثریت کا یہی حال ہے کہ وہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر بھی کھانا کھانے کے لیے حلال ریسٹورانٹ میں جاتے ہیں۔
برطانیہ کی پونے 7 کروڑ آبادی میں 2 کروڑ 90 لاکھ لوگ شراب پیتے ہیں اور ان میں سے صرف 10 فیصد لوگ ایسے ہیں جو ہفتے میں پانچ دن یا ہر روز شراب نوشی کرتے ہیں اور اوسطاً 10 لیٹر شراب ہر سال پی جاتے ہیں۔ یونائٹیڈکنگڈم میں جہاں ایک سے ایک اعلا قسم کی شراب دستیاب ہے، جگہ جگہ پب یعنی میخانے اور بار کھلے ہوئے ہیں، قدم قدم پر آف لائسنس (شراب کی دکانیں) ہیں لیکن اس کے باوجود اس ملک کی 43 فیصد آبادی شراب نوشی نہیں کرتی۔ کیوں کہ وہ شراب پینے کے ناقابلِ تلافی نقصانات سے آگاہ ہے۔ پاکستان میں شراب نوشی کرنے والوں کا خیال ہے کہ وہ پینے کے بعد سچ بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اُن میں جرأتِ رندانہ بیدار ہو جاتی ہے جب کہ گوروں کا خیال ہے کہ وہ زندگی میں سب سے زیادہ اوٹ پٹانگ حرکتیں اور بکواس نشے کی حالت میں کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ڈومیسٹک وائلنس یعنی گھریلو تشدد کی بڑی وجہ شراب نوشی ہے اور بہت سی انگریز لڑکیاں اور خواتین پارٹی اور تقریبات میں شراب نوشی کے بعد حاملہ ہو جاتی ہیں اور انہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ہونے والے بچے کا باپ کون ہے؟ ایسے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ پر والد کے خانے میں ’’نامعلوم‘‘ لکھ دیا جاتا ہے ۔
اسلام نے شراب نوشی، زنا، جوئے اور جن دیگر اعمال سے منع کیا ہے، اہلِ مغرب رفتہ رفتہ اس کی صداقت اور اِفادیت سے آگاہ ہو رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ نشے میں دھت ہو کر بھی خود کو شرابی ماننے کو تیار نہیں۔ گاؤں سے شہروں تک دیسی اور ولایتی شراب پینے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ کے باوجود ہم خود کو اسلام کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اسلام میں منافقت اور منافقین کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم اپنے مذہب کے تحفظ کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن اس کے احکامات پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے معاشرے میں شراب نوشی، زنا، رشوت ستانی، جوا، فراڈ، ملاوٹ اور دیگر معاشرتی برائیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، مگر ہم حقائق کو تسلیم کرنے اور ان کا علاج اور حل تلاش کرنے کی بجائے ان کی نشان دہی کرنے والوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں اور معاشرتی خرابیوں کے خلاف بات کرنے والوں کو دشمنوں کی سازشوں کا آلۂ کار سمجھنے لگتے ہیں۔ شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان پاکستان کی قومی غیرت اور دینی حمیت کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ یہ خود ایک برائی ہے بلکہ ام الخبائث ہے جو اور بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ مغربی معاشرے اس کی خرابیوں کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہونوشتۂ دیوار پڑھ لیں، وگرنہ ریت میں سر دینے سے خطرے نہیں ٹلتے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔