علم دوستی، اہلِ برطانیہ اور ہمارا موازنہ

یونائیٹڈ کنگڈم کی تقریباً پونے سات کروڑ آبادی کے لیے 3667 پبلک لائبریریاں ہیں، جب کہ پورے برطانیہ کے 24 ہزار سے زیادہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی کم و بیش 22 کروڑ ہے اور ملک بھر میں پبلک لائبریریوں کی تعداد صرف 182ہے۔ اس موازنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے پڑھے لکھے لوگوں میں علم دوستی اور مطالعے کا رجحان کس درجے پر ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں درگاہوں، درباروں، خانقاہوں اور مزاروں کی موجودگی اور عقیدت مندوں کی بھرمار، سالانہ عرس کا اہتمام، چڑھاوے ، منتیں،سجادہ نشینی کی کشمکش، ضعیف الاعتقادی کی حوصلہ افزائی اور فروغ اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ علم اور روشنی کے حصول کے سلسلے میں ہماری ترجیحات کیا ہیں۔
کہنے کی حد تک تو ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ علم مومن کی میراث ہے اور مسلمانوں کے ضابطۂ حیات کی پہلی آیت کا آغاز بھی ’’اقرا‘‘ یعنی پڑھ سے ہوا۔ یوں تو پاکستان میں بھی 183یونیورسٹیاں دنیا کے جدید ترین علوم کی تعلیم دے رہی ہیں لیکن معیاری تعلیم کی عالمی درجہ بندی میں یہ جامعات کسی شمار قطار میں نہیں جب کہ برطانیہ کی 106یونیورسٹیوں میں سے 3 دنیا کے دس بہترین تعلیمی اداروں میں شمار کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اگر انہوں نے مطالعہ کرنا یا لائبریری سے مستفید ہونا چھوڑ دیا ہے، تو شاید پوری دنیا میں لوگ اب کتابیں پڑھنے کی عادت ترک کر رہے ہیں۔ بالکل ایسا نہیں ہے۔ برطانیہ ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ ملک، ہر جگہ علم دوستی اور مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے تمام تر وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ برطانوی سیاست دانوں، صحافیوں، دانشوروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت مطالعے اور نئی نئی کتابیں پڑھنے کی شوقین ہے۔لائبریری جانا ان کی عادات میں شامل ہے۔
ویسے تو برطانیہ میں ایک سے ایک شان دار لائبریری موجود ہے لیکن لندن کی ’’برٹش لائبریری‘‘ دنیا کا ایک شان دار، بے مثال اور منفرد کتب خانہ ہے۔1 لاکھ 12 ہزار مربع میٹر رقبے پر محیط اس 14منزلہ لائبریری میں تقریباً دو سو ملین کتابوں، نادر مخطوطات، دستاویزات، تصاویر، ڈاک ٹکٹوں، آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ اور اخبارات و رسائل کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرے میں مختلف زبانوں، مذاہب، ملکوں اور تہذیبوں کے نوادرات شامل ہیں۔ اس علمی خزانے میں 3 ہزار سال قدیم تحریریں اور مخطوطات بھی محفوظ ہیں۔
اس عظیم لائبریری کے 90 ہزار ممبر ہیں جب کہ1 لاکھ 15 ہزار لوگ اس کی ریڈنگ رومز سے استفادہ کے لیے رجسٹر ہیں۔ ہر سال 33 ہزار اساتذہ اور طلبہ ’’برٹش لائبریری‘‘ کے لرننگ پروگراموں سے مستفید ہوتے ہیں۔
برٹش لائبریری کے علاوہ پورے برطانیہ میں درجنوں ایسے کتب خانے موجود ہیں جو اپنی خوب صورتی، پُرشکوہ عمارتوں اور حسنِ انتظام کے سبب کتابوں سے محبت کرنے والوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں آکسفورڈ کی ڈیوک ہمفری لائبریری، لیور پول کی سنٹرل لائبریری، لندن کی موغان لائبریری، کیمبرج کی رین لائبریری، ہیر فورڈ کی چینڈ لائبریری، ویلز کی گلیڈ سٹونز لائبریری، مانچسٹر کی چیتھم لائبریری، ایبر ڈین کی سرڈنکن وائس لائبریری، مانچسٹر کی جان ریلینڈ لائبریری اور ایڈنبرا کی سگنیٹ لائبریری کے علاوہ لائبریری آف برمنگھم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
برطانیہ میں کسی بھی لائبریری کی شان دار عمارت دیکھ کر مجھے اپنے آبائی شہر بہاول پور کی ’’سنٹرل لائبریری‘‘ ضرور یاد آتی ہے جو محسنِ پاکستان سر صادق محمد عباسی کے دورِ حکومت میں 1924ء میں ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم سے تعمیر کروائی گئی اور آج بھی یہ پنجاب کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔ نواب آف بہاول پور سر صادق عباسی کی علم دوستی، سیاسی بصیرت اور اپنی ریاست کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے جذبے کی گواہی تاریخ کے اوراق اور اہلِ بہاول پور کے دلوں میں محفوظ ہے۔ بدقسمتی سے نواب صادق عباسی کی رحلت کے بعد ان کے وارثوں میں کوئی ایک بھی اس اہلیت کا حامل نہیں رہا کہ ریاست کے علمی خزانوں اور اثاثوں کی حفاظت کرتا۔ ’’صادق گڑھ پیلس‘‘ اور ’’قلعۂ ڈراور‘‘ کی حالتِ زار دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنی تاریخی عمارتوں کا تحفظ نہ کرسکیں ان کے نزدیک علمی اثاثے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ بہاول پور کے نوابوں کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ علم کے حصول، علم کے فروغ اور کتب خانوں کی تعمیر پر بہت توجہ دیتے تھے۔ بہاول پور کے نواب محمد مبارک خان جو 1749ء سے 1772ء تک ریاست کے فرماں روا رہے۔ انہوں نے اپنا ایک ذاتی کتب خانہ بنایا جو بعد میں ’’کتب خانۂ سلطانی‘‘ کہلایا۔ اس بارے میں کچھ عرصہ قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبۂ فارسی کی سربراہ ڈاکٹر عصمت درانی کی کتاب کتب خانہ سلطانی شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ریاست کی اس اہم لائبریری کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے جو 18ویں صدی کے وسط میں قائم ہوئی اور جس میں ہزاروں نایاب کتابیں، رسائل، قلمی نسخے، ’’صادق الاخبار‘‘ کے شمارے اور مخطوطات موجود تھے۔ نواب سر صادق عباسی کی علم دوستی کی وجہ سے یہ کتب خانہ ان کی حیات میں ’’صادق گڑھ پیلس‘‘ میں بہت اچھی حالت میں موجود رہا، مگر ان کی وفات کے بعد نواب خاندان کے وارثوں میں جائیداد کی طرح یہ کتب خانہ بھی تقسیم ہوگیا۔ ڈاکٹر عصمت درانی نے بڑی محنت سے اس کتب خانے کا کھوج لگا کر اس علمی ذخیرے کی صرف 1558 کتابوں کی فہرست مرتب کر کے ان کی تفصیلات بھی درج کی ہیں۔
مذکورہ علمی خزانے کی وارثوں میں تقسیم کے بعد کس کے پاس کون سا نادر نسخہ یا کتاب گئی، اس بارے میں کسی کو علم نہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ بعض وارثوں نے تو اپنے حصے میں آنے والی کتابوں اور رسائل کو ردی کے بھاؤ بیچ دیا۔ اس کتب خانہ سلطانی کی بہت سی نایاب کتابوں اور نسخوں کا ذخیرہ اب بھی صادق گڑھ پیلس کی مبارک منزل میں موجود ہے جس تک رسائی کے لیے نواب صلاح الدین عباسی کی اجازت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر عصمت درانی کو یہ اجازت نہیں مل سکی۔ نواب سر صادق عباسی کے بعد ان کے پسماندگان اور خاندان میں اگر کوئی ایک وارث بھی علم د وست اور کتابوں کی اہمیت اور اِفادیت سے واقف ہوتا، تو کتب خانہ سلطانی تباہ اور ضائع ہونے سے بچ جاتا۔
ڈاکٹر عصمت درانی کی کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جو اقوام اور ملک اپنے علمی خزانوں اور کتابی اثاثوں کی حفاظت نہیں کرتے، وہاں ذہنی جہالت اور مادیت پرستی جڑ پکڑنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر ہم درجنوں مسلمان ملکوں بلکہ خوشحال مسلمان ممالک کی ترجیحات پر غور کریں، تو احساس ہوگا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران میں ٹیکنالوجی نے جس قدر ترقی کی ہے اس میں مسلمان ملکوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جدید ترین ہوائی جہازوں سے لے کر سمارٹ فون تک، فریج اور واشنگ مشین سے لے کر علاج معالجہ اور سرجری کے جدید طریقوں تک ہم مسلمانوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس کا بنیادی سبب ترجیحات کا تعین ہے۔ مغربی قوموں کی ترجیحات میں علم اور ٹیکنالوجی ہے۔ کافر اپنے ملکوں کی لائبریریوں اور کتب خانوں کی حفاظت اور ان سے استفادے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں جب کہ مسلمان ملکوں میں پیر پرستی، دم درود، مزاروں پر حاضری اور منتیں ماننے اور عرس کی محفلیں سجانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہماری ترجیحات درست ہوتیں، تو ہم ایٹم بم بنانے کی بجائے ایٹمی بجلی گھر بناتے۔ ترقی کی دوڑ میں دنیا کا ساتھ دینے کے لیے ہر دور اندیش قوم اور ملک، علم اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ رب العالمین صرف ان قوموں کی حالت بدلتا ہے جن کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال ہو۔ صرف وہی ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچتے ہیں جن کی سمت درست ہو۔ جس قوم کے لیڈر قوم کی گاڑی کو صرف ’’راؤنڈ اباؤٹ‘‘ پر چکر لگواتے رہیں، وہ توانائی اور وقت کو ضائع کر سکتے ہیں، رہنمائی کا حق ادا نہیں کر سکتے اور نہ کسی منزل تک پہنچنے کی خوش خبری کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔
قارئین، پاکستانی قوم جس قدر جلد خوابِ غفلت سے جاگے گی اور اپنے رہنما اور راہزن میں تمیز کر لے گی، اتناہی اس کے حق میں بہتر ہوگا۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔