آج جب مَیں اپنی قوم کا مجموعی مزاج دیکھتا ہوں، تو لاشعوری طور پر مجھے سکول کے دوران میں دیکھے گئے دو ڈرامے یاد آجاتے ہیں۔ آئیں، ان کی مختصر کہانیاں آپ کو سناؤں۔ پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ کیا واقعی یہ ہمارے معاشرتی رویوں کے عکاس ہیں یا نہیں؟
ایک ڈرامہ لاہور سنیٹر سے ’’گزارا نہیں ہوتا‘‘ کے نام سے ریلیز ہوا تھا، جس کا مرکزی کردار معروف ادکار قوی نے کیا جب کہ عرفان کھوسٹ بھی اس میں شامل تھے۔
بہرحال اس ڈرامے کی کہانی کچھ یوں تھی کہ قوی خان صاحب ایک سرکاری ملازم ہیں اور تب کی 12 ہزار تنخواہ حاصل کرتے ہیں، لیکن گھر میں ہر وقت مسائل رہتے ہیں۔ فلاں بِل فلاں بِل۔ سو ایک دن وہ خود ہی حساب کرتے ہیں کہ اگر میری تنخواہ میں 3 ہزار کا اضافہ ہو جائے تو گزرا باآسانی ہو۔ اسی دوران میں ان کی ملاقات پچپن کے دوست عرفان کھوسٹ سے ہوتی ہے۔ حال چال کے بعد وہ عرفان کھوسٹ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ تو کھوسٹ ان کو بتاتا ہے کہ اس کی دو فیکٹریاں ہیں اور اس کی ماہانہ آمدن قریب بارہ لاکھ ہے۔ اب قوی صاحب تو تین ہزار کا اضافہ سوچ کر سوچتے تھے کہ پندرہ ہزار میں گزارا ہوجائے گا۔ سو ان کے لیے تو یہ بہت اطمینان بخش آمدنی تھی۔ سو فوراً بولے ماشاء اﷲ پھر تو تم کافی اطمینان میں ہو۔ یہ سن کر کھوسٹ صاحب کہتے ہیں کہ نہیں جی، کہاں……! انکم ٹیکس کے مسائل، خام مال کی تنگی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، گزارا تو بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ قوی کے لیے یہ بات حیران کن ہوتی ہے۔پھران کی ملاقات ایک اور شخص سے ہوتی ہے۔ وہ ان کو بتاتا ہے کہ اس کا بندرگاہ میں یارڈ ہے۔ کچھ بحری جہاز ان کی ملکیت ہیں اور ان کی ماہانہ آمدن قریب بارہ کروڑ ہے، لیکن وہ بھی مسائل کا ذکر کرتے ہیں کہ جی ٹیکس بڑھ گئے ہیں۔ آئے دن ملازمین ہڑتالیں کرتے ہیں۔ اوپر سے یوٹیلٹی بلوں کی بھرمار ہے۔ الغرض گزارا نہیں ہوتا۔ اب قوی صاحب سوچ رہیں کہ کمال ہے۔ مَیں 12 ہزار میں پریشان جب کہ لوگ بارہ لاکھ اور بارہ کروڑ میں بھی مطمئن نہیں۔ اسی سوچ میں ہوتے ہیں کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ جب وہ جاکر دیکھتے ہیں، تو لنگی میں ملبوس ایک دیہاتی منتظر ہوتا ہے جو اس کو کہتا ہے کہ اس کو بھوک لگی ہے اور ایک وقت کا کھانا کھانا چاہتا ہے۔ اول تو وہ غصہ کرتا ہے کہ کیا یہ داتا دربار یا یتیم خانہ ہے! لیکن بیگم پیچھے سے اس کو تحریک دیتی ہے کہ غریب آدمی ہے۔ سو بلا لو نیکی کا کام ہے۔ وہ اس کو بلا لیتا ہے، کھانا پیش کرتا ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وہ شخص قوی کو بتاتا ہے کہ ہم گاؤں کے ماحول میں جہاں بھوک لگے وہی چلے جاتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ کسی کام سے فیصل آباد سے لاہور آیا تھا، لیکن لاہور سے بس نکل گئی۔ اب دوسری بس کل شام جائے گی۔ سو اس نے سوچا کہ وہ اگر کل تک انتظار کرے گا، تو چند روپیا خرچ بھی کرے گا۔ وقت ضائع کرے گا اور انتظار کی اذیت علاحدہ سو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پیدل چل پڑے، تو کل تک بنا خرچ کیے اور انتظار کی کوفت اٹھائے فیصل آباد پہنچ جائے گا۔ قوی خان حیرت سے کہتا ہے کہ تم فیصل آباد پیدل جا ر ہے ہو؟ وہ شخص کہتا ہے: ہاں جی! ہم جاتے رہتے ہیں وقت بوقت۔ پھر وہ قوی خان کو بتاتا ہے کہ اس کی دو کلے زمین ہے، تین بچے ہیں۔ اس کے پاس دو گائے، ایک بھینس اور دو بیل ہیں۔ اناج، دودھ، دہی گھر کا ہو جاتا ہے جب کہ سالانہ دال، مونگ پھلی وغیرہ سے اوسطاً چھے سو روپیہ آمدن بھی ہو جاتی ہے۔ کبھی سال بعد کوئی جانور بک جائے، تو دو ہزار اضافی مل جاتے ہیں۔ قوی خان اب اس کو اپنے حالات میں جانچتا ہے اور کہتا ہے کہ پھر تو اس کے حالات تنگ اور گزارا مشکل ہوگا۔ یہ سن کر وہ دیہاتی فوراً کہتا ہے کہ نا جی نا! بیوی بچے میرے بیمار نہیں ہوئے۔ مال ڈنگر میرا ٹھیک ہے۔ اس دفعہ بروقت بارشوں سے اچھی فصل کی امید ہے۔ سو اﷲ کا شکر ہے جی، بہت سوہنا مطلب بہترین گزرا ہوتا ہے، الحمدللہ! قوی خان یہ سن حیرت میں ڈوب جاتا ہے، تو اس کی بیوی کہتی ہے کہ انسان کے سکون کا تعلق اس کے اندرونی روحانی و نفسیاتی رویہ سے ہوتا ہے، پیسے سے نہیں۔ لیکن اس بات کو اکثر ہوس کا شکار اور دولت کے پجاری سمجھ نہیں پاتے۔
دوسرا ڈرامہ پی ٹی وی پشاور کا تھا جس کا نام تھا ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ اس کی کہانی یوں تھی کہ ایک نوجوان جو کالج کا طالب علم ہوتا ہے، اس کو اپنی خالہ کی بیٹی پسند آجاتی ہے۔ سو وہ ماں کو کہتا ہے کہ میرا رشتہ طے کردیں اپنی خالہ زاد سے۔ ماں اپنی بہن سے رشتہ کی بات کرتی ہے، تو بہن اس کو کہتی ہے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن تم اس کو کہو تعلیم مکمل کرلے۔ کیوں کہ ابھی رشتہ طے کیا، تو لوگ کیا کہیں گے؟ ماں اس کو بتاتی ہے، تو وہ لڑکا تعلیم پر توجہ دینا شروع کر دیتا ہے۔ جب تعلیم مکمل کرتا ہے، تو ماں کو دوبارہ خالہ سے رابطہ کا کہتا ہے۔ اب خالہ کہتی ہے کہ ٹھیک ہے تعلیم ہوگئی، لیکن اس کو بولو کوئی نوکری تو تلاش کرے، وگرنہ لوگ کیا کہیں گے؟ وہ نوکری کی تلاش شروع کر دیتا ہے اور نوکر ہو کرپھر ماں کو بھیجتا ہے۔ اب خالہ کہتی ہے کہ ٹھیک ہے نوکر تو ہوگیا لیکن اس کو بولو گھر تو بنالے اپنا، وگرنہ لوگ کیا کہیں گے؟ اب وہ گھر بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جب گھر مشکل سے مکمل کرتا ہے، تو اب خالہ بی کہتی ہے کہ اچھا ہوگیا لیکن نوکری تو نوکری ہے۔ اس کو بولو کوئی کاروبار اچھا سا بنا لے۔ اب یہ نوجوان جو تقریباً پختہ عمر تک جا چکا ہوتا ہے۔ فرسٹریشن اور عشق کے جوش میں امریکہ چلا جاتا ہے اور وہاں سالوں لگا کر پیسا کمالیتا ہے۔ پیچھے ماں باپ مر جاتے ہیں۔ خالہ مر جاتی ہے۔ سو اب وہ خود ہی خالہ زاد کے پاس جاتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ اس نے اس کی خاطر بہت دھکے کھائے ہیں۔ اب چوں کہ والدین تو نہ رہے سو کون بات کرے؟ اس لیے مَیں خود ہی تم سے کہتا ہوں کہ آؤ بیاہ کرلیں! اب وہ خالہ زاد اس کو جواب دیتی ہے کہ آپ کی بات ٹھیک ہے۔ مَیں نے بھی اب تک آپ کا انتظار کیا اور شادی نہ کی۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے بال بھی سفید ہوگئے ہیں اور میرے سر میں بھی چاندی اُتر آئی ہے۔ اب اگر بیاہ کرتے ہیں، تو لوگ کیا کہیں گے؟ یہ سن کر وہ شخص ایک دم افسوس اور حیرت سے سن ہو جاتا ہے اور اس مقام پر ڈراما کا اختتام ہوتا ہے۔
مَیں اب اس عمر میں جب اپنے معاشرہ کا مجموعی جائزہ لیتا ہوں، تو ان مصنفین کہ جنہوں نے مذکورہ ڈراموں کی کہانیاں لکھیں، کو بے تحاشا داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ اگر مَیں یہ کہوں کہ مذکورہ دونوں کہانیاں بالکل سچے واقعات پر مبنی ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ ایک طرف ہم میں دولت کی ہوس اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اس حصولِ دولت کی دوڑ میں ہم دوسروں کا حق مارنا تو اپنا حق سمجھتے ہی ہیں، مگر اس ہوس پرستی نے ہمیں مطلب خود بھی بے سکونی کا شکار کر دیا ہے۔ ہر وقت دولت میں اضافہ کی تمنا اور 99 کا کھیل ہمیں بذاتِ خود ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ ساتھ میں جسمانی بیماریاں بطورِ بونس ملتی ہیں۔ آپ کبھی اپنے معاشرے کا ایک سروے کرلیں، آپ کو اکثر امیر لوگ ذہنی تناؤ شوگر وغیرہ کے مریض ملیں گے۔ ان میں سے اکثریت کا خاندانی نظام درہم برہم ہوگا۔ کچھ تو طلاق یافتہ ہوں گے اور کچھ اولاد کی بغاوت کا رونا روتے ہوں گے ۔ وجہ کیوں کہ انہوں نے اپنا زیادہ قیمتی وقت اس دولت کو دیا جو ازل سے نہ وفادار ہے اور نہ وجۂ سکون۔
اسی طرح دوسری کہانی کا اگر آپ بغور جائزہ لیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح ہم محض دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی ذاتی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ ہمارے اندر نمائش کا شوق اور معاشرے کا جعلی اثر اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ ہم اپنی جائز خوشیوں کو بلی چڑھا دینا معمولی بات سمجھتے ہیں۔ خاص کر شادی کے معاملات میں یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی متوقع بہو یا داماد کو کردار کی بنیاد پر جج نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ سے ہی ہمارا یہ رویہ ہوتا ہے کہ اس رشتہ کو معاشرہ کس نظر سے دیکھے گا؟
ہمیں یہ دلچسپی نہیں کہ ہماری بیٹی یا بیٹا متعلقہ مرد یا عورت سے کس حد تک بطورِ شریک حیات مطمئن ہوگا؟ بلکہ ہمیں زیادہ فکر یہ ہوتی ہے کہ ہماری بہو یا داماد معاشرے کے ان لوگوں کہ جن سے ان کا کوئی براہِ راست تعلق بھی نہیں، کو کس حد تک متاثر کرسکتے ہیں؟
آپ کسی بھی رویہ (چاہے فلسفہ ہو یا سائنس، دین ہو یا ثقافت) کے تناظر میں دیکھ لیں، تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ہمارا یہ رویہ ایک نارمل شخص کا بالکل نہیں بلکہ ہم شاید مکمل طورپر ذہنی و نفسیاتی مرض کا شکار ہیں۔ کیا ہم بحیثیتِ مجموعی ان بیماریوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟ یہ بات قابلِ فکر ہے ہماری سِول سوسائٹی اور ریاست کے لیے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔