لفظ ’’مسالا‘‘ کو عام طور پر مصالحہ لکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔
اس حوالہ سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی کتاب ’’اُردو املا اور رسم الخط‘‘ کے صفحہ نمبر 66 پر کچھ یوں رقم کرتے ہیں: ’’مسالا خواہ گرم مسالا کے لوازم میں سے ہو یا گوٹا کناری کے معنی میں اسی طرح لکھا جائے گا۔ مصالحہ، مسالہ یا مصالا لکھا درست نہیں۔‘‘
نوراللغات میں اس ضمن میں لمبی چوڑی تفصیل درج ہے مگر حاصل یہی ہے کہ اس لفظ کا دُرست املا ’’مسالا‘‘ ہی ہے۔ اسے عربی لفظ ’’مصالح‘‘ کا مہند رقم کیا گیا ہے۔
نوراللغات میں دی جانے والی تفصیل میں کئی دلچسپ شعر درج ہیں، جن میں سے مصحفیؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
سامان سب طرح کا ہو لڑنے کا جس کے پاس
ہے آج کل انہیں کی مسالے کی شاعری
نوراللغات ہی میں ایک شعر صباؔ کا بھی اس حوالہ سے درج ہے، ملاحظہ ہو:
یہ دردِ سر ہوا ہے مسالے کے تیل سے
صندل کا عِطر چاہیے تم کو برائے زُلف