ملاکنڈ کے ایک دیہاتی گاؤں ’’جولگرام‘‘ میں ’’صفدر چیمہ میمورئل ٹورنامنٹ‘‘ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ علاقے کے لوگ اس سے کافی محظوظ ہو رہے ہیں۔ جس سوچ کے ساتھ اس کا آغاز کیا گیا ہے ، وہ انتہائی قابلِ ستائش ہے اور جس جگہ میں اس کے لیے گراؤنڈ بنایا گیا ہے، اس کو موسمی تغیرات اور لوگوں کی ستم ظریفیوں نے بالکل ویران کردیا تھا۔ اس ویرانے کو ایک ایسے گراؤنڈ میں تبدیل کرنا اور پھر دور دراز کے علاقوں کی ٹیموں کا اس ٹورنامنٹ میں حصہ لینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قوم کے نوجوانوں میں یہ استعداد موجود ہے کہ سہولیات کی غیر موجودگی کے باوجود وہ ترقی کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کے آن لائن میچز کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک امریکی صدر آئزن ہاور کی سوانح عمری کا ایک قصہ یاد آگیا اور اطمینان محسوس کیا کہ ہمارے پختونوں میں بھی امریکن قوم کی طرح رہی سہی سہولتوں کو بروئے کار لاکر بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ قصہ کچھ یوں تھا۔
امریکی صدرآئزن ہاور اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے بچپن میں ایک دن میری ماں نے بسکٹ اور کوکیز کے لیے پیسے دیے اور ہمیں ماموں کے گھر جانے کے لیے کہا۔ ہم بہت خوشی سے ماموں کے گھر چلے گئے۔ وہاں کھیل کود، نہانے اور بسکٹ کھانے سے کافی لطف اندوز ہوئے۔ جب شام کو گھر واپس آئے، تو ماں باہرصحن میں کچھ کام کر رہی تھی اور اپنے کمرے کی طرف اشارہ کرکے ہمیں کہا کہ وہاں اس کمرے میں ایک مہمان آیا ہے۔ وہ مہمان ہمارا نومولود بھائی تھا۔ میری ماں نے بچہ جننے کا یہ تکلیف دِہ اور مشکل کام اکیلے منیج کیا تھا۔‘‘
امریکی صدر اس قصے کے ذریعے اپنی قوم اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ اگر سہولتیں اور انفراسٹرکچر نہ بھی ہو، اپنی پُرعزمی، لگن اور مثبت سوچ کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں۔ آئزن ہاور کی ماں نے اپنے حوصلے، دستیاب سہولتوں اور اپنے تجربے کا صحیح استعمال کیا تھا اور اس سوچ اور جذبہ میں ساری دنیا کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ یہ سوچ اور جذبہ مجھے اس ٹورنامنٹ کے انتظام میں صاف نظر آ رہا ہے۔ منتظمین اس ٹورنامنٹ کو ظفر پارک یا کسی اور جگہ جہاں کھیلوں کے میدان موجود ہیں، منعقد کراسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے ’’خوڑ (ندی) کا گراؤنڈ‘‘ اپنی مدد آپ کے تحت ٹھیک کرنے کے لیے محنت کی۔ اپنے پیسے خرچ کیے، پھر اس کے لیے مارکیٹنگ کی اور ٹورنامنٹ کے انعقاد میں کامیاب ہوگئے ۔
کسی بھی کامیاب انسان اور قوم کا پروفائل اُٹھاکر دیکھیں، تو ان تمام میں آپ کو ایک چیز مشترک نظر آئے گی اور وہ یہ کہ سب کم اور اور دستیاب وسائل کے صحیح استعمال سے آگے کی طرف بڑھے ہیں۔ سب بصیرت اور ترقی کے دلدادہ اس بات پر متفق ہیں کہ کم وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرکے بڑے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے منتظمین نے یہ عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ ہاتھوں میں جو کچھ ہے، اس کے ذمہ دارانہ استعمال سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ صرف علاقہ کے لوگ نہیں بلکہ ساری پختون قوم اس سوچ اور جذبے کو استعمال کرکے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑی ہونے کے قابل ہوسکتی ہے۔

گاؤں جولگرام میں جاری ہاکی ٹورنامنٹ میں علاقہ کے معززین میچ دیکھ رہے ہیں۔ (فوٹو: ظاہر شاہ نگار)

ہر اچھے عمل کی بنیاد ایک مثبت سوچ ہوتی ہے۔ ٹورنامنٹ کے ایک منتظم کے ساتھ فون پر بات ہورہی تھی۔ وہ ملازمت کے سلسلے میں بیرونی ملک قیام پذیر ہے اور وہاں ہاکی بھی کھیلتا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ جب میں گاؤں چھٹیاں گزارنے کے لیے آیا، تو مَیں نے دیکھا کہ گاؤں میں ایک خوف ناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ لوگ گھروں میں موبائل فونوں سے کھیلتے تھے۔ بازاروں، پانی کے چشموں اور دوسرے پکنک مقامات پر جاتے تھے لیکن وہ پرانا والا پیار، محبت اور بھائی چارے کا ماحول نہیں تھا۔ اصل زندگی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اس سلسلے میں اس نے رحمت شاہ سائل کے چنداشعار بھی سنائے :
کہ سپرلی دی کہ گُلونہ دی غمژن دی
کہ مو سترگی دی کہ زڑونہ دی غمژن دی
درد د خکلو د بنڑو نہ را سہ سیگی
کہ مخونہ کہ خالونہ دی غمژن دی
یعنی ہمارے علاقے میں تمام لوگ پریشان ہیں حتی کہ یہاں بہاریں اور پھول بھی خوب صورتی اور نکھار بکھیرنے سے قاصر ہیں۔ ہر شخص غم زدہ دل کے ساتھ اِدھر اُدھر پھر رہاہے اورہر ایک کی آنکھوں سے اُداسی ٹپک رہی ہے۔ لوگ اتنے کرب اور درد سے گزررہے ہیں کہ خوب صورت لباس، سنگھار اور میک اَپ بھی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ دوست کہہ رہا تھا کہ مَیں بہت پریشان تھا کہ ان لوگوں کا کیا بنے گا؟ ان حالات پر بہت فکر مند تھا اور سوچ رہا تھا کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس سے لوگ بیدار ہوجائیں۔ گھروں سے باہر نکلیں۔ ایک دوسرے سے محبت اورخلوص کی باتیں کریں۔ اپنے غم اور درد کو ایک دوسرے سے شریک کریں۔ اپنے مسائل پر بات کریں۔
اس برین سٹارمنگ کے دوران میں پھر اپنے آپ سے سوال کرتا رہا کہ کس طریقے سے ایک خوش گوار ماحول بنایا جائے جس میں لوگ ایسے مصروف ہوجائیں کہ وہ اپنے غموں اور پریشانیوں کے اس بھنور سے باہر نکلیں؟ مَیں تو ایک سپورٹس مین ہوں، تو ظاہر ہے میرا دل اور دماغ تو کھیل کے حوالے سے ہر وقت سوچتا ہے۔ اچانک ایک ٹورنامنٹ کے انعقاد کا خیال ذہن میں آیا جس کو مَیں نے اپنے دوستوں کے ساتھ شریک کیا۔ اس پر گفتگو ہوئی اور آخرِکار اس کو آخری شکل دے کر اس کا اعلان کیا گیا۔ ابتدا میں یہ سب کچھ مشکل نظر آرہا تھا لیکن آہستہ آہستہ کام چل پڑا۔
بقولِ مجروح سلطانپوری:
مَیں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس مثبت سرگرمی نے اس چھوٹے سے دیہاتی گاؤں ’’جولگرام‘‘ کے لوگوں میں آگے جانے کا جذبہ اُبھارا۔ لوگ گھروں سے نکلے اور کھیل سے محظوظ ہوئے۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر پُرجوش نعرے لگا کر اپنی پریشانیوں کو بھلا بیٹھے ۔
ہمارے ملک پاکستان کو لاتعداد معاشی، سماجی اور سیکورٹی کے مسائل کا سامنا ہے جس سے مہنگائی اور بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا عام آدمی کی دسترس سے نکل رہا ہے۔ صحت کارڈ جیسی انقلابی تبدیلی نے بھی صحت کی سہولت میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی پیدا نہیں کی۔ عدالتوں اور سرکاری محکموں سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ عوامی نمائندے اپنی کرسیوں کو بچانے کے چکر میں ہیں جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ دو سالوں سے تمام کاروبار کرونا کی وجہ سے یا تو بند ہوگئے ہیں اور یا نقصان میں جا رہے ہیں۔ ان سارے چیلنجوں سے حکومت اکیلے نہیں نمٹ سکتی اورچوں کہ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ تبدیلی نیچے سے عوام ہی لاسکتے ہیں۔ اس لیے عوام کو آگے آنا ہوگا اور اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق کوئی ایسی ’’مثبت سرگرمی‘‘ شروع کرنی ہوگی جس سے کم از کم لوگ اس تباہ کن گھٹن سے نکل کر آگے جانے کی تیاری کریں، اور آئزن ہاور کی ماں اور ٹورنامنٹ کے منتظمین کی طرح دستیاب کم وسائل کو استعمال میں لاکر بات آگے بڑھائیں۔
پشتون قوم کے موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ عقل سے کام لے اور زیادہ سے زیادہ محنت کرے۔ کیوں کہ عالمی درندوں نے ایک بار پھر اپنے مفادات کی جنگ کے لیے پختون سرزمین کا انتخاب کیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔