حادثاتی صورتِ حال، شدید بیماری یا سرجری کی صورت میں کسی بھی انسان کو خون، پلازما اور وائٹ سیل کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کے لیے خون کے عطیات انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔ ہر سال 14 جون کا دن خون عطیہ کرنے والوں کے عالمی دن (Blood Donor Day) کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد خون کی محفوظ منتقلی کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تمام ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو بغیر کسی ذاتی لالچ کے اپنا خون دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے عطیہ کرتے ہیں۔
خون، انسانی جسم کا ایک لازمی جزو ہے جو کہ دل اورشریانوں کے ذریعے جسم کے مختلف اعضا میں گردش کرتا رہتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ہر بالغ انسان کے جسم میں تقریباً 1.2 گیلن سے 1.5 گیلن تک یعنی 4.5 لیٹر سے 5.5 لیٹر تک خون ہوتا ہے۔ کسی بھی ضرورت مند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقۂ جاریہ میں شمار ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ المائدہ میں اللہ تعالا نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار دیاہے۔ جب کہ کسی بھی دوسرے انسان کی مدد سے قدرتِ الٰہی کی جانب سے قلبی سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔انسان ہر قسم کی آفات اور محرومیوں سے نجات پاتا ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جب کہ یہ بات بالکل درست نہیں۔ ہر تن درست انسان کے بدن میں تقریباً ایک لیٹر (یعنی دو سے تین بوتلیں) اضافی خون ہوتا ہے۔ ماہرینِ صحت کا کہناہے کہ ہر تن درست انسان کو سال میں کم از کم دو بار خون کا عطیہ ضرور د ینا چاہیے۔ اس سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے، بلکہ خون کا عطیہ دینے والے افراد صحت مند رہتے ہیں۔ خون عطیہ کرنے میں جتنا خون لیا جاتا ہے، وہ انسانی جسم تین دن میں پورا کرلیتا ہے، جب کہ خون کے سیلز 56 دن میں بن جاتے ہیں اور نئے خون کے خلیات پرانے خون سے زیادہ صحت مند اور طاقت ور ہوتے ہیں، جو انسان کو کئی امراض سے بچاتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک بار خون کا عطیہ دینے کے بعد دوبارہ تین ماہ یا اس سے بعد دینا چاہیے۔
’’امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن‘‘ کی ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ وقتاً فوقتاً خون کا عطیہ دیتے ہیں، ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے چانس 95 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ جسم میں آئرن کی زیادہ مقدار اور اس کے کم اخراج کی وجہ سے آئرن انسان کے دل، جگر اور لبلبہ کو متاثر کرتا ہے، جب کہ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ جسم میں آئرن کی مقدار کو بیلنس رکھنے کے لیے خون عطیہ کرنا ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس عمل سے رگوں میں خون کے انجماد کو روکنے اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے۔
باقاعدگی سے خون دینے والے ڈونر موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے، کیوں کہ خون دینے کا عمل جسم کی چربی کو کم اور وزن کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد نئے خون کے بننے سے چہرے میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور یہ چہرے پر بڑھاپے کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف 1 سے 2 فیصد ایسے افراد ہیں جوکہ رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں جب کہ دیگر افراد حادثات یا دیگر سنگین صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں۔
ماہرینِ صحت کے مطابق ہمارے جسم میں خون کی زندگی محض 120 دن ہوتی ہے، تو کیوں نہ ہم وہ خون ضائع ہونے سے بچائیں۔ اپنے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ بیدار کریں۔ خون کا عطیہ دیں اور کسی کی زندگی بچائیں۔
خون کی محفوظ منتقلی کے لیے خون کا گروپ معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر خون کے گروپس کو چار اقسام یعنی اے، بی، اُو اور اے بی میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ہر ایک قسم کی پازیٹو اور نیگٹیو میں مزید تقسیم ہے۔
گروپ اُو خون کو تمام گروپس کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے جب کہ گروپ اے خون کو اے اور اے بی، گروپ بی کو بی اور اے بی اور گروپ اے بی خون کو صرف اے بی گروپ کے مریضوں کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ ہر وہ شخص جس کی عمر17 سے 50 سال اور وزن تقریباً 50 کلو سے زائد ہو، وہ خون کا عطیہ دے سکتاہے۔
اس کے علاوہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ خون کا عطیہ دیتے وقت ڈونر کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جن میں ہیپاٹائٹس بی سی، ایڈز، ملیریا اور آتشک کے ٹیسٹ شامل ہیں، جس کی وجہ سے ڈونر اپنی کسی بھی پوشیدہ بیماری سے بھی اس کے لاعلاج ہونے سے پہلے آگاہ ہو جاتا ہے۔
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔