افغان کی 20 سالہ جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا……؟ اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ البتہ دونوں جانب سے مالی اور جانی نقصان ضرور ہوا جو کہ ایک المیہ ہے۔ دیر آید درست آید، امریکہ نے 11 ستمبر 2021ء تک اپنی تمام فوجیں افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن وہاں کسی نہ کسی طور پر رہنے کی خواہش بھی دل میں رکھے ہوئے ہے۔ تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے اور کوئی دوسرا اُسے شکست خوردہ بھی تسلیم نہ کرے۔
اس کا اندازہ گذشتہ دنوں امریکہ کے سنٹرل کمانڈ کے چیف جنرل کینتھ میکنزی کی پینٹاگون میں ایک پریس بریفنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں جنرل میکنزی نے انکشاف کیا کہ امریکی سفارت کار وسطِ ایشیا کی چار ریاستوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں کہ بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ اُن سے کن شرائط پر ہوائی اڈے اور عسکری نوعیت کی دوسری سہولیات لی جاسکیں؟
جنرل میکنزی کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کو ان ریاستوں کی اِس لیے ضرورت ہے کہ وہ افغانستان سے انخلا کے بعد اُن اڈوں کو افغان افواج کی بروقت فعال امداد کے لیے استعمال کرسکے۔
قارئین، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ پریس بریفنگ میں جنرل میکنزی سے کسی بھی صحافی نے یہ سوال تک نہیں کیا کہ پاکستان سے بھی اِس سلسلے میں کوئی بات چیت ہورہی ہے یا نہیں؟
جنرل میکنزی نے پریس بریفنگ میں پاکستان کا اِس حد تک ذکر کیا کہ اگر 11 ستمبر کے بعد خطے میں حالات خراب ہوئے، تو اس کازیادہ اثر افغان جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے والے پاکستان ہی پر پڑے گا۔
دوسری طرف پاکستانی صحافیوں نے بھی آج تک اپنے حکمرانوں سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر ہمارے ہوائی اڈے استعمال کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ نہیں؟ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکہ نے پاکستان سے اس کے ہوائی اڈوں کے استعمال کا مطالبہ کیا تھا، مگر اسے ابھی تک جواب نہیں ملا۔ شاید یہ فیصلہ پاکستان نے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں ایک اور سنگین غلطی نہ دہرانے کی غرض سے کیا ہو۔
اس بار پاکستان کو سوچ سمجھ کر وہ فیصلہ کرنا چاہیے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ لوگوں کے خیال میں اگر امریکہ سے ایسا کوئی معاہدہ کیا گیا، تو ملک میں اِس فیصلے کے خلاف تحریک کے آغاز کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان نے امریکی مطالبات مان کر ہمیشہ نقصان اُٹھایا ہے جب کہ اس کی دوسری وجہ امریکہ کی توتا چشمی بھی ہوسکتی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے جنرل پرویز مشرف تک اور تمام سویلین حکومتوں نے امریکہ کا ہر مطالبہ بلا کسی چوں و چرا کے مان لیا تھا جس کی پاکستان کو بہت بڑی قیمت چکانا پڑی۔ پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر اُٹھایا۔ امریکہ نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے پاک افغان بارڈر کے آر پار کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کا ایک اور تیر بھی پھینکا ہے، تاکہ امریکہ ترقیاتی کاموں اور دیگر سہولیات کی نگرانی کے بہانے علاقے میں موجود رہے اور اپنے مفادات کے لیے بہتر طور پر کام کرسکے۔
اس طرح امریکہ اور یورپی ممالک کو پاکستان اور چین کی قربتیں بھی پسند نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح اُن کا دست نگر رہے اور وہ پاکستان سے جو بھی مطالبہ کریں، پاکستان اُس کے ماننے میں ٹال مٹول سے کام نہ لے۔
لیکن دنیا بدل چکی ہے اور اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے او آئی سی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کرتے ہوئے دنیا میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رویوں کا اجتماعی سطح پر مقابلہ کرنے اور مشترکہ مؤقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ختمِ نبوتؐ پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، جو سامراجی طاقتوں کو منظور نہیں۔
امریکہ اور اُس کے حواری پاکستان سے ایک مرتبہ پھر جس تابع فرمان کردار ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس کا خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر امریکہ کے کہنے پر مغربی ممالک نے پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ یورپی یونین نے چند دن قبل ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے یہ قضیہ اٹھایا کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ انھیں تحفظ دینے کے لیے اسلام آباد مذہبی قوانین میں ترمیم کرے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس (Generalized system of preference) کے سٹیٹس پر نظرِ ثانی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان نے تین شرائط کے سوا ایف اے ٹی ایف کی تقریباً تمام شرائط پوری کر دی ہیں، لیکن امریکی سامراج کے کہنے پر ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے پر بضد ہے۔ برطانیہ نے بھی کوئی وجہ بتائے بغیر پاکستان کو ترسیلاتِ زر پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام فلاحی اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں تیزی سے صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھ کر خارجہ پالیسی ترتیب دے رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں حکمرانوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح حزبِ اختلاف کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی بہتری میں حکمرانوں کا ساتھ دیں۔ سیاسی اختلافات اور آپس کی ناراضی کے لیے بہت وقت ہے، یہ پھر کبھی سہی۔
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔