گذشتہ ہفتے دو اہم واقعات ہوئے۔ پہلا واقعہ، تحریک لبیک کا دھرنا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اب تک تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
دوسرا، ہفتہ کے آخری دنوں میں کوئٹہ کے ایک لگژری ہوٹل میں خود کُش دھماکہ جس میں تادمِ تحریر پانچ لوگ انتقال کرگئے ہیں جب کہ تقریباً دس افراد تک زخمی ہوچکے ہیں۔
یاد رہے کہ مذکورہ ہوٹل ایک ملک گیر ہوٹلز چین کا حصہ ہے۔ انتہائی مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ہائی پروفائل‘‘ بھی ہے۔ کوئٹہ میں جس چوک پر یہ واقع ہے وہاں بالکل سامنے ایک طرف بلوچستان ہائی کورٹ جب کہ دوسری طرف بلوچستان صوبائی اسمبلی واقع ہے۔ تیسری جانب کچھ فاصلے فرنٹیر کور (ایف سی) بلوچستان کا ہیڈ کوارٹر بھی واقع ہے۔ ایف سی کی طاقت کا اندازہ صرف بلوچستان میں رہنے والوں لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ اندورون و بیرونِ ملک سے آئے ہوئے اہم ترین سرکاری و غیر سرکاری لوگ عموماً اسی ہوٹل میں قیام و طعام کرتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسی روز پاکستان میں نو تعینات چینی سفیر اپنے وفد کے ہمراہ بلوچستان کے دورے پر تھے۔ دورہ کے دوران میں اسی ہوٹل میں بھی آئے گئے تھے۔ یہ تو خوش قسمتی تھی کہ دھماکے کے وقت چینی سفیر یا کوئی غیر ملکی اس ہوٹل میں موجود نہیں تھا۔ اگرچہ دھماکا کے بعد امریکی میڈیا نے مسلسل اپنی کوریج میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حملے کا نشانہ چینی سفیر تھے۔
قارئین، امریکی میڈیا کے اس واویلا سے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چین نے اس دھماکے کی پُرزور مذمت کی ہے، ساتھ پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
قارئین، گذشتہ ہفتے کے مذکورہ دو اہم واقعات میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ اور وہ ہے ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ (ٹی ٹی پی) کا از سر نو سامنے آنا۔ جب ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ (ٹی ایل پی) اور پنجاب پولیس کے مابین لاہور میں چپقلش جاری تھی، عین اسی وقت ٹی ٹی پی نے اپنے میڈیائی بیان میں ٹی ایل پی کو غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا۔ پھر جب کوئٹہ دھماکا ہوا تو ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ نے ببانگِ دُہل ذمہ داری قبول کی۔
اب یہ مت سوچیں کہ ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ اور امریکہ میں کوئی غیر مقدس اتحاد ہے۔ البتہ یہ سوچنے میں کوئی حرج نہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کا دوبارہ منظم ہونا ’’اماراتِ اسلامیہ افغانستان‘‘ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ ابھی تک واضح طور پر افغان طالبان نے پاکستان طالبان سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی ہے۔ اب جب کہ امریکہ بدترین شکست کی صورت میں افغانستان سے نکلنے کی تیاری میں ہے اور طالبان کی عسکری، سماجی، سیاسی اور نفسیاتی قوت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، تو ایسے میں تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنا تشویش ناک ہی ہے۔
پاکستان جو افغان خانہ جنگی سے بہت متاثر ہوچکا ہے۔ اب افغان امن عمل میں ایک اہم کردار کے طور پر کھڑا بھی ہے۔ اگر ایک بار پھر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوتاہے یا ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ کی قیادت اسی طرح افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں جاری رکھتی ہے، تو یہ نیک شگون بالکل نہیں۔ افغانستان کا امن اور بدامنی براہِ راست اگر کسی ملک پر اثر انداز ہوتی ہے، تو وہ پاکستان ہی ہے۔
کراچی سے چترال تک پھیلے لاکھوں افغانی مہاجرین اسی صورتِ حال کی دین ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا سماجی بندوبست برباد ہوچکا ہے۔
قارئین! ماہِ رواں (اپریل) کے آخر میں استنبول میں ’’افغان امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد اسی وجہ سے ملتوی ہوچکا ہے کہ افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ کسی ایک بھی غیر ملکی فوجی کی افغانستان میں موجودگی کی صورت میں مذاکرات نہیں ہوں گے۔
دوسری طرف پورے افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔ روز بروز ’’افغان نیشنل آرمی‘‘ اور خفیہ ادارے کے اعلا عہدیداران قتل کیے جا رہے ہیں۔ ان نئی کارروائیوں سے افغان طالبان کی قوت اور ان کی بٹھائی جانے والی وحشت میں اضافہ فطری عمل ہے۔ اس کا نتیجہ اگر یہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کی تنظیمِ نو ہو، تو یہ صورتِ حال پاکستانی ریاست اور حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیوں کہ بہت زیادہ عسکری، عوامی اور معاشی قربانی کے بعد پاکستان میں امن قائم ہوا ہے۔ اب اس امن کو قائم رہنا چاہیے۔
افغان طالبان کے ساتھ بہر صورت یہ نکتہ اٹھانا ہوگا کہ ان کے زیر کنٹرول اکثریتی افغانستان میں جہاں بھی تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت موجود ہے، اس کو یا تو پاکستان کے حوالے کرے یا اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے کہ وہ سرحد پار ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ کو شہ نہ دیں، تاکہ دونوں ملکوں میں امن قائم رہے۔ کیوں کہ کسی ایک ملک میں بدامنی سے دوسرا ملک پُرامن نہیں رہ سکتا۔
ہمارے پرانے زخم ابھی تازہ ہیں۔ نئے زخم کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہماری زمین پر پرائی جنگیں کافی لڑی جاچکیں۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
…………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔