آدم خوری

ہمارے معاشرے آدم خور ہوچکے ہیں۔ آپ چونک گئے ہوں گے کہ آپ نے یہاں انسانوں کو گدھوں کا یا کتا کا گوشت کھلانے کا سنا ہے لیکن کبھی سنا نہیں ہوگا کہ انسان کو انسانون کا گوشت بھی کھلایا ہوگا؟ مَیں جس آدم خوری کی بات کررہا ہوں، وہ انسانی گوشت کھانے سے بھی بدتر ہے۔ اس کی کی کئی صورتیں ہیں:
٭ پہلی صورت:۔ ہمارے معاشرے وحدانیت کی بجائے کلیت پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ یہاں بھی چونک گئے ہوں گے کہ ان معاشروں میں تو سب ایک خدا کے ماننے والے ہیں، لہٰذا یہ کس طرح وحدانیت نہیں؟ میرا مقصود عقیدہ نہیں یہاں بلکہ وہ سماج اور اس کے رویے ہیں جو ہم سب میں سرایت کرگئے ہیں۔ یہاں کوئی فرد اپنی زات میں فرد نہیں بلکہ سماج ہی فرد ہے اور سماج ہی حقیقت ہے۔ ایک فرد کی کوئی اپنی حیثیت نہیں۔ کسی انسان کی فردیت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ سماجی کل مل کر اس کی فردیت اور انفردیت کو ختم کرجاتا ہے۔ اسی لیے یہ سماج کسی انسان کی فردیت کو ختم کرکے اس کو زبردستی کل میں تحلیل کرجاتا ہے۔ یوں ایک شخصیت مرجاتی ہے۔ ایک فکر مرجاتی ہے اور نتیجتاً ایک انسان مرجاتا ہے اور جو ہمیں نظرآتاہے، وہ شخصیت، فردیت اور فکر سے خالی ایک جسم نظر آتا ہے۔ یوں اس معاشرے کو آدم خور کہا جاسکتا ہے۔
٭ دوسری صورت:۔ یہ پہلی صورت سے پیوست ہے اور اسی کا جز ہے۔ یہ معاشرے حد درجہ ’’جج منٹل‘‘؍ متعصبانہ؍ جاسوسی بن چکے ہیں، جہاں لوگ اپنے بعض تعصبات اور مفروضات کی بنیاد پر دوسرے کے کردار، شخصیت، سرگرمیوں اور عقیدوں کے بارے میں نہ صرف جاسوسی کرتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے درست اور غلط کا فیصلہ صادر کرکے دوسروں کے بارے میں اپنے تعصبات کو دیگر لوگوں میں بھی پھیلاتے ہیں۔ اس عمل کے لیے توروالی زبان میں ایک گہرا لفظ ’’بُومُو‘‘ مستعمل ہے جس سے مراد ’’کردار کشی‘‘ ہے۔ یہ عمل زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ اپنے مفروضات اور تعصبات پر مبنی تقدیس اور جاسوسی کی اچھی مثال گذشتہ دنوں وسیم اکرم کی آسٹریلوی نژاد بیوی کے ایک تصویر پر سوشل میڈیا پر وایلے سے ظاہر ہے۔ اسی طرح ترکی کے جنگی ڈرامے میں ہیروئین حلیمہ کے ڈرامے میں کردار اور حقیقی زندگی میں کردار پر بحث اور تنقید ہے۔ جب ارطغرل کے دلدادہ حلیمہ خان کے اس ڈارمے میں کردار کو حقیقی اور اپنے مفروضات کی بنیاد پر درست سمجھ کر اس کی حقیقی زندگی کو برداشت نہ کرسکے اور اس کے لباس پر بھڑک اٹھے تھے۔ ان معاشروں میں عام لوگ تو چھوڑیں کئی ایسے بھیڑیے بھی بھیڑوں کے بھیس میں گھومتے ہیں، کئی ایسے بزرگ و پاک دامن بھی اس کھیل میں پوری طرح شامل ہیں کہ جن کا ظاہر کئی لوگوں کو آسانی سے دھوکا دے سکتا ہے۔ یہ مکار لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دوسروں کی کردار کشی کرتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں اپنے ان تعصبات کو اوروں میں منتقل کرتے ہیں۔ ایسا بہت مہارت اور مکاری سے کیا جاتا ہے کہ اگلے کو لگے صاحب ایسا نہیں کررہا، لیکن وہ اگلا اس کی چال میں پوری طرح پھنس جاتا ہے۔ ہم چوں کہ تعلیم یافتہ اور خواندہ معاشرے نہیں اور ہمیں کچھ تعلیم ایسی دی گئی ہے کہ جہاں صرف ایک دفعہ کا ذکر ہوتا ہے۔ مطلب عام اور معروف خیالات اور افواہوں کے برعکس دوسرا کوئی خیال یا فکر نہیں دی جاتی۔ اس لیے ہمارے سماج کے افراد تنقیدی اور تجزیاتی فکر سے خالی ہیں۔ کوئی یہ پوچھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ جو اسے کہا جا رہا ہے، اس پر کوئی دوسری رائے بھی ہوسکتی ہے یا جس کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ واقعی ایسا ہے کہ نہیں؟ اور یا پھر جس سے جو بات منسوب کی گئی ہے، کیا اس نے واقعی میں ایسا کہا ہے کہ نہیں؟ چوں کہ تجزیہ، تفکر اور سوال مشکل عمل ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے مشکل بیزار حیوانی و طبعی معاشرے اس سے جان چھڑاتے ہیں اور آسانی کی خاطر جو سن لیں، اُس پر یقین کرلیتے ہیں۔
آپ کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں آپ کے موجودہ اور سابقہ دوست بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ وہ آپ سے اپنی کسی ذاتی رنجش کی بنیاد پر کہ جس کی اپنی بنیاد ان کے اپنے مفروضات اور تعصبات پر کھڑی ہوتی ہے، آپ کی کردار کشی کرتے ہیں اور لوگوں میں ایسی باتیں پھیلاتے ہیں کہ جن کا مقصود آپ کو نقصان پہنچانا ہو۔ یہ دوست نما دشمن، اُن دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو بندوق اٹھا کر آپ کے سامنے آسکتے ہیں۔ ہمارے قدیم معاشروں میں دشمنیوں کے بھی اصول ہوتے تھے کہ جہاں دشمن آپ پر چھپ کر نہیں بلکہ آپ کو جگا کر وار کرتا تھا۔ مگر نیم جدیدت اور حد درجہ لالچ کی وجہ سے اب یہ دشمنیاں بھی بدل گئیں ہیں اور آپ کے مخالفین آپ کی کردار کشی مختلف وجوہات پر کرتے ہیں۔ جب کچھ اور شے نہ ملے، تو مذہب تو موجود ہے کہ اس کو بہانہ بنا کر لوگوں کو آپ کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ میری نظر میں ان بندوق بردار کھلے دشمنوں سے بدتر ہوتے ہیں اور ان کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔
اس صورت حال میں وہ لوگ غوث ہیں جو کسی کے خلاف باتیں نہیں کرتے، جو کسی کے عقیدے کو نشانے پر نہیں لیتے اور جو کسی کے پیٹھ پیچھے باتیں نہیں پھیلاتے۔
ایسے لوگ بہت کم ملیں گے، لیکن جہاں ملیں، ان کی قدر کریں۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔