منفرد طریقے سے جینا محمد علی سے سیکھیں

احمد عقیل روبی اپنی کتاب ’’کھرے کھوٹے‘‘ میں پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر دل عزیز، خوب صورت اور دراز قد ہیرو محمد علی (مرحوم) سے متعلق ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کوٹھی کے خوب صورت لان میں سردی کے ایک دوپہر کو علی بھائی اور مَیں مصروفِ گفتگو تھے کہ ملازم نے آکر علی بھائی سے کہا کہ باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے اور یہ اس کا چوتھا چکر ہے۔ علی نے اسے بلالیا۔ کاروباری آدمی لگتا تھا لیکن چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی جب کہ لباس صاف ستھرا تھا۔ شیو بڑھی ہوئی، سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا، تو علی بھائی نے کہا: ’’جی فرمائیے!‘‘، ’’فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی! کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے نہایت گھمبیر آواز میں کہا۔ احمد عقیل روبی کہتے ہیں کہ اس آدمی نے میری طرف دیکھا کہ وہ علی بھائی سے تنہائی میں کچھ کہنا چاہتا ہو، لیکن علی بھائی نے کہا: ’’آپ ان کی فکر نہ کیجیے، جو کہنا ہو کہیے۔‘‘ اس آدمی نے علی بھائی سے کہا: ’’چوبر جی میں میری برف کی فیکٹری ہے لیکن کاروباری حماقتوں کی وجہ سے وہ میرے ہاتھوں سے جارہی ہے۔‘‘ ’’کیوں، کیسے جارہی ہے؟‘‘ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لیے پوچھا۔ ’’ایک آدمی سے میں نے 70 ہزار قرض لیا تھا لیکن میں لوٹا نہ سکا۔ مَیں نے پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے۔ اب میرا قرض خواہ فیکٹری کی قرقی لے کر آرہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھنے لگے۔ پھر کہنے لگے: ’’آپ کا برف کا کارخانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحق تو نہیں؟‘‘، ’’جی جی ہے! میں صاحبِ اولاد ہوں اور اگر یہ فیکٹری چلی گئی، تو میں برباد ہوجاؤں گا۔ مَیں مجبور ہوکر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘ ’’فرمایئے، میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘ علی بھائی نے پوچھا۔ اس آدمی نے کہا: ’’میرے پاس بیس ہزار ہیں۔ پچاس ہزار آپ مجھے اُدھار دیں۔ مَیں آپ کو قسط وار لوٹادوں گا۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ سیگریٹ سلگائی اور مجھے مخاطب ہوکر کہنے لگا: ’’روبی بھائی! یہ آسمان بھی بڑا ڈراما باز ہے۔ کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے۔ شطرنج کی چالیں چلاتا ہے۔ کبھی مات کبھی جیت۔‘‘ یہ کہہ کر اندر چلے گئے۔ واپس آئے تو ہاتھ میں نوٹوں کا بنڈل تھا۔ کرسی پر بیٹھ کر اس آدمی سے کہا: ’’پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی۔‘‘علی بھائی نے کہا اور پھر اچانک کہیں کھوگئے اور سیگریٹ کا دھواں چھوڑ کر کچھ تلاش کرتے رہے۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے: ’’آپ کے پاس تین روپے کھلے ہیں؟‘‘، ’’جی جی ہیں!‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے ایک روپے کے تین نوٹ نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھادیے۔ علی بھائی نے وہ نوٹ لیے اورنوٹوں کا بنڈل اس شخص کو دے دیا۔ ’’یہ پچاس ہزار روپے لے جائیے۔ علی بھائی نے کہا اور اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ جب اُس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر ذرا سکون کی سانس لی، تو بھائی سے پوچھا: ’’یہ تین روپے آپ نے کیوں کر لیے؟‘‘ علی بھائی نے کہا: ’’یہ تین روپے میں نے آپ سے تین دن کی مزدوری کے لیے۔‘‘، ’’مزدوری کے لیے اور مجھ سے؟ میں سمجھا نہیں۔‘‘ اس پر علی بھائی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا، تو مَیں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سیلیں اُٹھاکر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی، مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا، تو آپ نے میری تین دن کی مزدوری اپنے پاس رکھ لی۔ وہ آج میں نے وصول کرلی۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر وہ تین روپے جیب میں ڈالے اور کہا: ’’آپ یہ پچاس ہزار روپے لے جائیں۔ جب آپ کی مالی حالت بہتر ہو، تو واپس کیجیے گا۔‘‘
علی بھائی یہ بات کہہ کر مزے سے سیگریٹ پینے لگے اور میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم انسان نہیں بلکہ دورِ فراعنہ کے دو حنوط شدہ ممیاں کرسیوں پر رکھی گئی ہوں۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
…………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔