’’بڑے بڑے اعلا سرکاری افسران اپنی رانی توپ جیسی بیگمات میرے حوالے کرکے کہتے تھے کہ میں انہیں ’’مادھوری‘‘ بنا دوں!‘‘ یہ بیان ہے ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کا، جن کا خاکہ میں اس وقت لکھنے چلا ہوں۔ دُنیا، ساگا کو محض ایک ڈانسر کے طور پر جانتی اور مانتی ہے مگر بحیثیتِ بزرگ دوست میں نے انہیں جیسا پایا، وہ بہت باکمال شخصیت تھے۔ بے پناہ خوبیوں کے مالک اور سب سے بڑھ کر انسان دوست۔ اگر اُن کے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ نہ بھی لگا ہوتا، تو فقیر حسین ساگا کے نام کے ساتھ بھی وہ کچھ کم نہیں تھے۔ ڈاکٹر وہ ’’ایم بی بی ایس‘‘ تھے، نہ ’’پی ایچ ڈی‘‘ اور نہ ’’ہومیوپیتھک‘‘ کی آڑ میں شکار کھیلنے والے ڈاکٹر۔ وہ فورٹ ولیم کالج، کلکتہ کے ڈاکٹر گلکرسٹ کی طرح ڈنگر ڈاکٹر تھے، جو محض اُن کا ذریعۂ روزگار اور گھر کا راشن تھا۔
ڈاکٹر ساگا بتاتے تھے کہ انہوں نے گھوڑا ہسپتال، لاہور (موجودہ یونیورسٹی) میں طالب علموں کو پوری توجہ اور سنجیدگی سے اپنے مخصوص انداز میں پڑھایا، تو روایتی استاد مجھ سے حسد کرنے لگے، طالب علموں کی زبانی میری تعریفیں سن کر۔ کبھی مَیں اُن کے حصے کا بھی پڑھایا کرتا تھا۔ پھر انہوں نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ مجھے کوئی پیریڈ نہیں دیا جائے گا۔ مجھے ہر حال میں خوش اور مصروف رہنا آتا تھا۔ سو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ فائدہ ہی ہوا۔
ڈاکٹر ساگا کے ساتھ جب میری دوستی ہوئی، تو اُن کے پاس سکوٹر تھا اور میرے پاس بائیک اور مَیں پنجاب بینک میں ملازم تھا۔ جہاں کے جی ایم ایڈمن ڈاکٹر آصف حفیظ شیخ اُن کے رشتہ دار تھے۔ پنجاب بینک میں بھی ڈاکٹر ساگا کو بہت سے لوگ جانتے تھے۔ خوش اخلاق اور ملن سار، اگر فن کار بھی ہو، تو کون نہیں ملنا چاہے گا؟ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کا ذاتی گھر اسلامیہ پارک میں میرے گھر اور دفتر کے درمیان تھا۔ اس لیے دفتر سے واپسی پر تو اکثر اور کبھی کبھی صبح دفتر جاتے ہوئے بھی ساگا صاحب سے ملاقات ہوجاتی۔ لوگوں میں تو ساگا صاحب، مستنصر حسین تارڑ کی طرح کنجوس مشہور تھے مگر جانے کیوں میری بڑی آؤ بھگت کرتے تھے۔ مجھے اپنے آرٹسٹک ہاتھوں کے ساتھ چائے کے اس خاص برتن میں چائے بنا کر پیش کرتے تھے جس میں صرف 2 کپ چائے ہی بنتی تھی۔ برتن لبنان کا بنا ہوا تھا۔ چائے لپٹن کی ہوتی تھی جو ہم لپٹنے کے بعد پیتے تھے۔ بھولے بھٹکے ٹوٹے پھوٹے بسکٹ بھی آجاتے اور کبھی کبھار رشید بیکری سے نمکو اور سموسے بھی، مگر سب پہ غالب رنگ اُن کی دلچسپ اور معلوماتی باتوں کا ہی رہتا۔
وہ بہت بے تکلف انسان تھے۔ اس لیے مجھ سے اکثر گرمیوں میں یوں ملتے کہ جسم کا اوپری حصہ ننگا ہوتا اور شلوار بھی وہ اپنے گھٹنوں تک اونچی رکھتے تھے۔ اُن کا جسم بہت چکنا اور غیرضروری بالوں سے پاک تھا۔ پیٹ معمولی سا نکلا ہوا تھا۔ اپنے ڈرائنگ روم کا سیمنٹ والا ٹوٹا پھوٹا فرش خود مجھے دکھا کر کہتے: ’’اے ویکھ، شاگرد کڑیاں نے اَڈیاں مار مار کے توڑ چھڈیا اے!‘‘
ڈاکٹر ساگا اور مجھے، ہمارے مشترکہ پیارے دوست ڈینٹسٹ ضمیرالحسن ڈار نے "AVARI” میں بوفے دیا، وہیں اسی دوران میں ساگا صاحب نے ہمیں بتایا کہ پاکستان کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم پاکستان کے سفیر برائے ہندوستان ہمایوں کبیر نے کیا۔ اُس نے موئن جودڑو سے نکلی ہوئی "DANCING GIRL” والی مورتی جو اصل میں کانسی کی تھی اور اس زمین پر رقص کی اوّلین شہادت تھی۔ ہندوستان کی حکومت کو یہ کہتے ہوئے بخش دی: ’’رقص تو آپ کا مذہب ہے، ہمارا ڈانس سے کیا تعلق؟‘‘ ہندوستان، ہمایوں کبیر کی اس احمقانہ حرکت سے انتہائی خوش ہوا۔ اصل کانسی کی مورتی لے کر سات پردوں میں چھپا دی جب کہ موئن جودڑو کے میوزیم میں "DANCING GIRL” کی پتھر پر بنی نقل پاکستانیوں کا منھ چڑا رہی ہے۔ یہ وہ قومی نقصان ہے جس کا جواب ہم سے آنے والی نسلیں ضرور لیں گی۔ یہ مورتی اپنی قیمت میں کوہِ نور ہیرے کی برابری کرتی تھی جو ایک احمق سفیر کی حماقت سے دشمن کے پاس چلی گئی۔
اُن کے گھر میں تو اُن کی شاگردوں کو مَیں نے بہت کم دیکھا۔ ویسے بھی اپنے گھر میں ہر شریف انسان گیدڑ ہوتا ہے۔ اُن کا اصل ڈیرہ شاکر علی میوزیم، گارڈن ٹاؤن، لاہور تھا جہاں وہ ڈانس کی کلاسز لیتے تھے۔ رقص کے ابتدائی اُردو، پنجابی اسباق کچھ یوں ہوتے تھے:
تھوڑا دائیں دیکھو
تھوڑا بائیں دیکھو
تھوڑا آگے دیکھو
تھوڑا پیچھے دیکھو
سجّا پیر
کھبا پیر
اوہدے بعد اَڈی
کبھی کبھی لفظ ’’تتکار‘‘ بھی سننے میں آیا مگر مجھے اس کے معنی معلوم نہیں۔ ڈانس کرنا، ڈانس سکھانا اُن کی اضافی آمدنی ضرور تھی مگر فن سے محبت سب سے برتر تھی۔ اور یہ آمدن اُن کی محنت کا وہ پھل تھی، جو ہر ریاضت کرنے والے کو کبھی نہ کبھی ضرور حاصل ہوجاتا ہے۔ گداگروں کا سڑک کنارے بیٹھنا اک ریاضت ہی تو ہے جو ایک دن بیٹھے بیٹھے اُن کو لکھ پتی بنادیتی ہے۔
اسلامیہ کالج، سول لائنز کے جریدے ’’فاران‘‘ (سلور جوبلی نمبر 1986ء) میں ڈاکٹر فقیر حسین ساگا رقم طراز ہیں: ’’مَیں 1954ء سے 1959ء تک اسلامیہ کالج میں بی ایس سی کا طالب علم رہا ہوں۔ اس زمانے میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے، بی ایس سی کی کلاسیں اسلامیہ کالج، سول لائنز میں منتقل ہوئیں۔ اس زمانے میں کالج کا ماحول نہایت شریفانہ تھا۔ آج کل کی طرح ہنگامہ آرائی کا تصور بھی نہ تھا۔ مَیں کالج کت ڈرامیٹک کلب کا فعال رکن تھا اور اُس کے سٹیج سے ہر فنکشن میں رقص کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ پروگرام کے اختتام پر پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم جو اس وقت پرنسپل تھے، سٹیج کے پیچھے تشریف لائے اور مجھے شاباش دی۔ 1959ء میں کالج کے سالانہ جلسۂ تقسیمِ انعامات کے موقع پر مجھے خصوصی ثقافتی انعام مہمانِ خصوصی جنرل محمداعظم خان کے ہاتھوں ملا۔ تعلیمی، ادبی اور ثقافتی روایات میں اس کالج کا مقام نہایت اعلا رہا ہے اور بڑی بڑی سیاسی، ادبی اور سرکاری انتظامیہ سے متعلق شخصیات اس درس گاہ سے فارغ التحصیل ہوئی ہیں۔ جس وقت مجھے جنرل محمد اعظم خان انعام دے رہے تھے۔ حاضرینِ محفل زور زور سے تالیاں بجا رہے تھے۔ پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم اور خواجہ اسلم مرحوم پیش پیش تھے۔ اُن کے مسکراتے چہرے اور تالیاں بجاتے ہاتھ مجھے کبھی نہیں بھولے۔‘‘
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق یہ ساگا صاحب کے فن رقص کے سفر کا ایک شان دار آغاز تھا۔

ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کی فائل فوٹو جو ان کے یوٹیوب اکاونٹ سے حاصل کی گئی ہے۔

ساگا صاحب بتاتے تھے کہ ڈانس سیکھنے کی خاطر انہوں نے بہت ماریں کھائیں۔ اُن کے کاسٹیوم جلا دیے گئے۔ انہیں ہیجڑا ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ کیا کچھ نہیں کہا گیا اُن کو، مگر انہوں نے فن پر کمال حاصل کرکے ہی چھوڑا۔ اپنے تو اپنے، پرائے بھی اُن کے گھر کے باہر لکھ جایا کرتے تھے: ’’یہ ناچے کا گھر ہے!‘‘ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا، اس جملے کو مٹانے کی بجائے یہ اضافہ کردیا کرتے تھے: ’’جوکہ تمہارا ہمسایہ ہے!‘‘ پڑھے لکھے اور جاہل میں بس یہ فرق ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ خواندگی بڑھی اور شرارتی لڑکے بالے یہ لکھنا چھوڑ گئے۔
ایک مرتبہ انہوں نے قریبی مسجد میں نماز کی امامت کرنے کی کوشش کی، تو اُن کے کلین شیو ہونے اور باڈی لینگویج کو دیکھتے ہوئے اُن کی امامت میں لوگوں نے نماز پڑھنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے نماز، روزے کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اور اپنے فن میں پناہ لی جو اُن کی اصل پہچان تھا۔
ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کسی کا جھوٹ بولنا قطعاً برداشت نہیں کرتے تھے، چاہے جھوٹ بولنے والا ڈاکٹر انورسجاد ہی کیوں نہ ہو۔ ڈاکٹر انورسجاد کسی تقریب میں تقریر کررہے تھے۔ مَیں اور ڈاکٹر ساگا بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر ساگا نے ڈاکٹر انور سجاد کا کوئی جھوٹ پکڑا اور فوراً حاضرین کے درمیان اُٹھ کھڑے ہوئے اور ڈاکٹر انور سجاد کو ٹوکتے ہوئے کہا: ’’حاضرین! ڈاکٹر انور سجاد بہ طورِ طالب علم گھوڑا ہسپتال میں مجھ سے سینئر تھے۔ پھر فیل ہوتے ہوتے جونیئر ہوگئے اور پھر یہ لائن ہی چھوڑ کر ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوگئے۔‘‘ ڈاکٹر انور سجاد کا چہرہ بھی سُرخ ہوا۔ انہوں نے منمناتے اور ہکلاتے ہوئے وضاحت کرنے کی کوشش تو کی، مگر حاضرین کے ذہنوں میں ڈاکٹر ساگا کی بات اپنی جگہ بنا گئی تھی جس پر چوہدری شجاعت حسین کی طرح مٹی ڈالنا اب بے سود سی کوشش تھی۔
ڈاکٹر فقیر حسین ساگا نے عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ’’چیرٹی ڈنر‘‘ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، تو مَیں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ وہ چیرٹی ڈنر اس وجہ سے یادگار تھا کہ مہمانِ خصوصی لیڈی ڈیانا تھیں۔ ساگا صاحب پرفارمنس میں مست تھے اور میری پوری کوشش تھی کہ لیڈی ڈیانا سے قریب ہوکر ہاتھ ملایا جائے اور کوئی بات کی جائے۔ آخر میری خواہش پوری ہوئی۔ مَیں نے لیڈی ڈیانا سے ہاتھ ملایا۔ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کا تقابل کتھک مہاراج سے کیا جاتا تھا جس پر ساگا صاحب بہت خفا ہوتے تھے۔ مجھے بتاتے تھے کہ یہ بنگالی ایک بہروپیا ہے۔ ڈانسر ہوگا کسی زمانے میں مگر ایک عرصہ ہوا اُسے کسی نے ڈانس کرتے نہیں دیکھا۔ چوں کہ پاکستان میں ہر 2 نمبر آدمی کی دال گل جاتی ہے اس لیے کتھک مہاراج کی بھی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔ مہاراج کی محفل پُررونق اس لیے ہے کہ اُس کا کوئی بال بچہ نہیں۔ مَیں کنجوس اس لیے مشہور ہوں کہ میرے بچے اعلا تعلیم یافتہ ہیں۔ میرا سب کچھ اپنے گھر پر ہی خرچ ہوجاتا ہے۔
یہاں ساگا صاحب کی اعلا ظرفی ماننی پڑے گی کہ مجھے تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی غرض سے انہوں نے مجھے اَز خود کتھک مہاراج کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ شاید انہوں نے میرا چہرہ پڑھ لیا تھا کہ میں سنی سنائی پر ایمان لانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ ہرشخصیت اور نظریہ کے بارے میں اپنی رائے چھان پھٹک کے بعد خود قائم کرتا ہوں۔ یوں سمجھیں ساگا صاحب نے مجھے کتھک مہاراج کی طرف دھکیلا اور ایک روز شدید گرمی اور حبس زدہ موسم میں میرے قدم دہلی مسلم ہوٹل، انار کلی، لاہور کی جانب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مَیں موازنہ انیسؔ و دبیرؔ کرنے جارہا تھا۔
واہ! کیا محفل تھی کتھک مہاراج کی۔ ہر طرح کا نشہ اور مشروبات وہاں چل رہے تھے۔ ہر ملاقاتی کو اُس کی پسند کا مشروب اور فواہکات پیش کیے جا رہے تھے۔ کتھک مہاراج گہرے سبز رنگ کی ساٹن کا ایک چغہ پہنے گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ کمرے میں بیس، پچیس مردوزن موجود تھے۔ مَیں نے مہاراج کو تعارف کے لیے اپنا ناول ’’غازہ خور‘‘ پیش کیا۔ جسے مہاراج نے دلچسپی کے ساتھ دیکھا اور حاضرین کو دکھا کر، ایک طرف رکھ دیا۔ مَیں نے مہاراج کے ساتھ بے تکلف ہونے کی غرض سے اور حاضرین کو اپنی آمد کا احساس دلانے کے لیے سہیل وڑائچ کے پولے، بھولے اور ہولے سٹائل میں معصوم سا جملہ پھینکا: ’’مہاراج یہاں کبھی چھاپا بھی پڑا ہے؟‘‘ مہاراج سمیت سبھی مسکرائے، کچھ ہنسے۔ مہاراج نے جواب دیا: ’’ارے میاں یہاں ایسا ممکن نہیں۔ جانے کہاں ایسا ہوتا ہوگا!‘‘ مَیں سگریٹ پیتا تھا نہ شراب، مجھے ٹھنڈا جوس بھی ملا اور گرم چائے بھی۔
اسی ملاقات میں ایک طوائف بھی کتھک مہاراج سے ملنے آئی۔ وہ اپنے ساتھ ایک لڑکی کو لے کر آئی تھی جس کی ڈانس کی تربیت شروع ہونے والی تھی۔ نوخیز لڑکی نے مہاراج کے چرن چھوئے۔ مہاراج نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے تکیے کے نیچے سے 5 کے نئے نوٹوں والی کاپی نکال کر اُسے شبھ کامناؤں کے ساتھ دی۔ مہاراج کی آنکھوں اور گفتار میں بنگال کا جادو بولتا تھا۔ اس ملاقات کے بعد میری رائے ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کے حق میں ہوگئی اور میرے دل سے تشکیک کا کانٹا ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔ کتھک مہاراج، ڈاکٹر فقیر حسین ساگا سے بھی پہلے اگلی دنیا سُدھار گئے مگر اپنا آپ، سیّدنور کی فلم ’’سرگم‘‘ میں محفوظ کرگئے، جو اصل میں گلوکار عدنان سمیع خان نے زیبا بختیار کو قابو کرنے کے لیے فنانس کی تھی۔ فلم نے درمیانہ بزنس کیا اور اپنی لاگت مارکیٹ سے واپس لے لی۔
جب ڈاکٹر ساگا کو پتا چلا کہ کتھک مہاراج سے ملاقات کے بعد میرا ووٹ اُن کے حق میں ہے، تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے لے کر ڈیفنس میں پاکستان کے سب سے بڑے فراڈیے محمودسپرا (سلمیٰ آغا فیم) کے گھر گئے۔ مجھ سے اُس نے رسمی سا دو انگلیوں والا ہاتھ ملایا اور ساگا صاحب کو لے کر اپنے بیڈروم میں چلا گیا۔ میرے پاس ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بھی دیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ شیشے کی میز پر بے باک انگلش رسالوں کا ڈھیر لگا تھا جو دوچار گھنٹے وہاں بآسانی گزارنے کے لیے کافی تھے۔ گورنر ہاؤس کی طرح ہر آدھے گھنٹے بعد میری تواضع کسی نہ کسی چیز سے کی جاتی رہی۔
محمود سپرا کے پاس اُن دنوں کئی نوجوان اور پُرکشش لڑکیاں اور لڑکے اعزازی طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اس لیے کہ وہ اپنی فلم ’’سورج پہ دستک‘‘ کی خبریں اخبارات میں لگوا چکا تھا۔ یہ وہ سبز مکھیاں تھیں جو آم کی خوشبو پر جانے کہاں سے آجاتی ہیں؟
محمودسپرا نے عرب شیخوں سے ایک فراڈ میں لمبا پیسہ بٹورا تھا۔ اس نے عربوں کو یہ سنہرا سپنا دکھایا تھا کہ وہ اُن کے ملک میں گلیشیر لے کر آئے گا جو خالص ترین صاف پانی ہوگا۔ گلیشیر کو پلاسٹک کوٹنگ کی جائے گی اور اُسے پگھلنے سے روکنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جائے گی۔ اس کام کا ایڈوانس ہی کروڑوں ریال تھا جو محمود سپرا کھاگیا۔
ساگا صاحب، محمودسپرا کے بیڈروم سے نکلے تو فلم کے لیے منتخب گانے کے بول گا رہے تھے ’’کشمیر توں لے کے ملاکنڈ……‘‘
ساگا صاحب مشہور پارسی ڈانسر مادام آزوری کے شاگرد تھے۔ مجھے انہوں نے اپنی اُستاد اور اپنی شاگرد سے ایک ہی دن ملوایا۔ شاگرد فریال گوہر تھی۔ موقع فریال گوہر کی ٹیلی فلم ’’ٹبی گلی‘‘ کی رونمائی کا تھا جس کا پریس شو امریکن سنٹر مرحوم میں رکھا گیا تھا۔ یہ آخری تقریب تھی جو مَیں نے امریکن سنٹر میں اٹینڈ کی۔ فلم کمال کی تھی۔ مادام آزوری نے بھی ’’ٹبی گلی‘‘ میں ایک رول کیا تھا اور بذاتِ خود بھی حاضرین میں موجود تھیں۔ وہ تقریب مجھے آج بھی مسرور کردیتی ہے۔
ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کی دو شدید ترین خواہشیں تھیں۔ ایک ’’تمغائے حسنِ کارکردگی‘‘ پانا اور دوسرا اپنی کتاب ’’پنجاب کے لوک رقص‘‘ پرنٹ کروانا۔ مَیں نے اُن کی یہ دونوں خواہشیں اپنے سامنے پوری ہوتی دیکھیں۔
مَیں بھی اُن پر ایک کتاب ’’ساگا کہانی‘‘ لکھنا چاہتا تھا جس کی غرض سے چھوٹی کیسٹ والی ٹیپ ریکارڈر بھی خریدی۔ کچھ کیسٹیں ریکارڈ بھی پڑی ہیں مگر کتاب سے پہلے یہ خاکہ لکھنے کا خیال آیا اور اس پر عمل بھی ہوگیا۔ خود کو زنخا کہنے والوں کو منھ توڑ جواب انہوں نے 6 بچے پیدا کرکے دیا اور فن کے میدان میں اُن جیسا کوئی اور پیدا نہ ہوسکا۔ ناہید صدیقی کے شاگرد نگاہ حسین نے کچھ نام ضرور پیدا کیا اس لائن میں مگر فقیر حسین ساگا جیسی بات کہاں۔
ساگا صاحب اس بات پر بہت جلتے، کڑھتے تھے کہ پاکستانی فلم ڈانس ڈائریکٹر اپنے نام کے ساتھ ’’سمراٹ‘‘ لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سمراٹ‘‘ ٹائٹل ہے جو متحدہ ہندوستان کے بہترین ڈانس ماسٹر کو بہت مشکل سے ملتا تھا۔ یہ اولاد کو ٹرانسفر نہیں ہوسکتا، جس طرح کسی حافظِ قرآن کا بیٹا خود قرآن حفظ کیے بغیر اپنے نام کے ساتھ ’’حافظ‘‘ نہیں لکھ سکتا۔
ڈاکٹر ساگا 7 زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اُن کا نام بیرونی ثقافتی وفود میں ڈالنا خود سیکرٹری صاحبان کی مجبوری تھا۔ کیوں کہ باہر جاکر ساگا صاحب سارا کام خود سنبھال لیتے تھے پاکستان کو متعارف کروانے کا اور سیکرٹری صاحبان اور اُن کی بیگمات شاپنگ کے لیے کھلا وقت پاتے تھے۔ پاکستان کے بارے میں ہر مشکل سوال کا جواب دینا ساگا صاحب کا ہی فرض تصور کرلیا گیا تھا۔
ڈاکٹر ساگا اپنی ضرورت مند شاگردوں کو کاسٹیوم وغیرہ اپنی گرہ سے خرید دیتے تھے، تاکہ یہ فن کسی نہ کسی طرح چلتا رہے۔ مَیں نے انہیں اپنے سسرالی رشتہ داروں کی ایک دعوتِ ولیمہ میں ڈانس کرنے کا کہا، تو وہ بلامعاوضہ پرفارم کرنے پر تیار ہوگئے اور بروقت اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ آبھی گئے، مگر ہمارے رشتہ دار مولوی ٹائپ تھے، انہیں اسلام خطرے میں نظر آیا۔ اس طرح یہ پرفارمنس نہ ہوسکی۔ میرا خیال تھا کہ ساگا صاحب اس بات کا بہت برا مانیں گے، مگر انہوں نے اس حوالے سے دوبارہ کبھی بات نہ کی۔
ڈاکٹر صاحب اپنے ساتھ مجھے ایک بار مجلس میں بھی لے گئے۔ یوں میرے تجربے میں آنسوؤں بھرا اضافہ ہوا، مگر ہاتھ قیمہ والے نان کے اور کچھ نہ آیا۔ حضرت امام علیؓ اور حضرت امام حسینؓ کی دل میں عظمت وعزت وہی رہی جو پہلے سے تھی۔ اُس کا گراف نہ اوپر گیا نہ نیچے آیا۔
اپنے گھر تمام دوستوں کی مَیں نے مچھلی پارٹی کی۔ ساگا صاحب نے یہ محفل اپنی باتوں سے ہی لوٹ لی۔ آج بھی میرے دوست اس محفل کو یاد کرتے ہیں۔ خاموش رہنا اور نچلا بیٹھنا اُن کے لیے امرِمحال تھا۔ پارہ بھرا تھا اُن کے جسم میں۔
ڈاکٹر ساگا ریٹائر ہوچکے تھے۔ ’’تمغائے حسنِ کارکردگی‘‘ مل چکا تھا۔ ’’پنجاب کے لوک رقص‘‘ گورا پبلشرز نے پرنٹ کردی تھی۔ ساگا صاحب بہت مطمئن اور خوش تھے۔ کبھی کبھی اپنے پائلٹ بیٹے راغب ساگا کو یاد کرکے بہت روتے تھے جو زیرِتربیت تھا اور اُس کا طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ چوں کہ اُس کی نوکری ابھی پکی نہ ہوئی تھی، اس لیے ساگا صاحب کو اُس کی لاش کے علاوہ کچھ نہ ملا۔
ساگا صاحب کتنے بڑے فنکار اور کمیٹیڈ انسان تھے؟ اس بات کا پتا لوگوں کو ایسے چلا کہ وہ سٹیج پر طے شدہ پروگرام میں اپنی پرفارمنس دینے کے بعد زار و قطار رونے لگے۔ تمام حاضرین اور انتظامیہ دُکھی ہوگئے اور ساگا صاحب کی طرف سب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ساگا صاحب نے مائیک پر آکر رونے کی جو وجہ بتائی اُس نے تمام مجمع کو رُلا دیا: ’’آپ کو پتا ہے؟ آج میرا بیٹا وطن کی آن پر قربان ہوگیا!‘‘ وجدان و الہام کو محض مذہبی تناظر میں ہی لکھا، بولا اور پڑھا جاتا ہے مگر میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں وجدان اور وجدانی کیفیت تمام فنکاروں، ادیبوں، شاعروں، آرٹسٹوں اور دیگر متعلقینِ فنونِ لطیفہ کا بنیادی وصف ہوتا ہے جو اُن کو عام انسانوں کی سطح سے اٹھا کر بلندی پر لے جاتا ہے۔ وَجد کی کیفیت جتنی پُرزور اور معروض سے غیریت پیدا کرنے والی ہوتی ہے اُتنی ہی بلندپایہ تخلیق معرضِ وجود میں آتی ہے۔ فقیر حسین ساگا بھی اپنے وجد و مستی میں ڈوبے رہے، تو لازوال پرفارمنس دینے والے بنے رہے مگر جب معروض سے راغب حسین ساگا شہید کی موت سے تعلق جڑا، تو آبگینہ ایسا ٹوٹا کہ پھر نہ جڑسکا۔
ذہین لوگوں سے جلنے والے لوگ ’’جنرل ضیاع‘‘ کی طرح جل کر ہی مرتے ہیں اور فن کے نام پر زندہ رہنے والے فن کے نام پر ہی مرتے ہیں۔ افسانہ نگار رحمان مذنب اور ڈاکٹر فقیر حسین ساگا کی موت میری نظر میں اُن بہترین اموات میں سے ہیں جو اچانک ہوئیں اور فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوئیں۔ رحمان مذنب اپنے رائٹنگ ڈیسک پر بیٹھے لکھنے میں مصروف تھے۔ بسنت بہار کے دن تھے۔ کسی کی کٹی پتنگ اُن کے گھر آکر گری۔ وہ پتنگ اُٹھانے اُن کے گھر کودا۔ پتنگ سے پہلے اُس کی نظر مذنب صاحب کے گرے ہوئے سر پر پڑی جو رائٹنگ ٹیبل پر دھرا تھا۔ اُسے احساس ہوا کہ معاملہ خراب ہے۔ اُس نے گھر والوں کو بتایا اور رحمان مذنب صاحب کی موت کی تصدیق ہوگئی۔
اسی طرح ڈاکٹر فقیر حسین ساگا بھی تابندہ ماڈل سکول بُورے والا کے ہال میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ دن بسنت بہار ہی کے تھے۔ محفل اپنے عروج پر تھی۔ حاضرین رات کے خمار میں ڈاکٹر ساگا کی پرفارمنس میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ساگا میناکماری کی فلم پاکیزہ کے مشہور گانے: ’’چلتے چلتے‘‘ پر پرفارم کررہے تھے۔ ڈاکٹر ساگا ڈانس کرتے کرتے زمین کی طرف جھکے۔ سب نے سمجھا ڈاکٹر ساگا نے ڈانس کا کوئی ایکشن دیا ہے۔ تالیاں بجیں، مگر گرنے والا پھر اُٹھ نہ سکا۔ یہ ہرٹ اٹیک نہیں ہرٹ فیلیئر تھا۔ مجھے یقین ہے اُن کی روح بھی رقص کرتی ہوئی آسمانوں میں داخل ہوئی ہوگی اور کسی فرشتے کے ہاتھ نہیں آئی ہوگی۔
ایک منٹ میں اپنے پاؤں کی ایڑی پر درجنوں چکر لے جانے والا بھلا کسی کے قابو میں کہاں آتا ہے!
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔