افلاطون ایک دن اپنے استاد سقراط کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا،اُستاد بازار میں ایک شخص آپ کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔
سقراط، افلاطون سے پوچھتا ہے کہ ’’اس نے کیا کہا ہے؟‘‘ افلاطون کے جواب دینے سے پہلے ہی سقراط اُسے روک دیتا ہے اور پوچھتا ہے: ’’کیاتمہیں یقین ہے کہ جو بات تم مجھے بتانے جا رہے ہو وہ 100 فیصد سچ ہے؟‘‘ افلاطون نفی میں سر ہلاتا ہے۔
سقراط کہتا ہے: ’’پھر جو بات سچ نہیں ہے، اسے بتانے کا کیا فائدہ؟‘‘ اور پوچھتا ہے: ’’جو بات تم مجھے بتانے جا رہے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘ افلاطون کہتا ہے:’’نہیں استادِ محترم یہ توبری بات ہے۔‘‘ سقراط کہتا ہے: ’’کیا تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہیے؟‘‘ افلاطون انکار میں سر ہلاتا ہے۔
سقراط افلاطون سے پھر سوال کرتا ہے: ’’جو بات تم مجھے بتانے جا رہے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟‘‘ افلاطون پھر انکار میں سر ہلاتا ہے۔ سقراط مسکرا کر کہتا ہے: ’’جو بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اسے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ سقراط افلاطون کو نصیحت کرتا ہے کہ کوئی بھی بات عام کرنے یا بتانے سے پہلے اسے تین اصولوں پر جانچ لینا چاہیے:
٭ کیا بات سو فیصد درست ہے؟
٭ کیا بتائی جانے والی بات اچھی ہے؟
٭ کیا بتائی جانے والی بات سننے والوں کے لیے مفید ہے؟
(عابد ضمیر ہاشمی کی ایک طویل تحریر سے اقتباس)