ابو الاعجاز حفیظ صدیقی اپنی مشہور تالیف ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ (مطبوعہ ’’اُسلوب‘‘ لاہور، اشاعتِ اول، مئی 2015ء، صفحہ 221) میں صنعتِ خیفا کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں: ’’کلام میں اس امر کا التزام کرنا کہ علی الترتیب ایک کلمے کے تمام حروف غیر منقوطہ ہوں اور ایک کلمے کے تمام حروف منقوطہ، علمِ بدیع کی اصطلاح میں صنعتِ خیفا کہلاتا ہے، جیسے صہبائیؔ کا یہ مصرع:
کار فیض مدار بخت رہا
اس مصرعے میں پہلا کلمہ ’کار‘ ملاحظہ ہو۔ اس کے تمام حروف غیر منقوطہ ہیں جب کہ دوسرے کلمہ ’فیض‘ کے تمام حروف منقوطہ ہیں۔‘‘
در اصل مذکورہ تعریف مولوی نجم الغنی (رام پوری) کی تالیف ’’بحر الفصاحت‘‘ کی جلد ششم و ہفتم (مرتبہ ’’سید قدرت نقوی‘‘، مطبوعہ ’’مجلسِ ترقیِ اُردو ادب لاہور‘‘، طبعِ سوم، اکتوبر 2017ء) کے صفحہ نمبر 130 سے لی گئی ہے۔ ’’بحر الفصاحت‘‘ میں پورا شعر اس طرح رقم ہے:
شب کو جشنِ سرورِ تخت رہا
کارِ فیضِ مدارِ بخت رہا
دیگر متعلقہ مضامین:
صنعتِ تضاد/ طباق
صنعتِ مُراعاۃ النظیر
صنعتِ نسبت
صنعتِ ترجمۃ اللفظ
صنعتِ ذوالقافتین/ ذواقوافی
نیز مولوی نجم الغنی رام پوری نے مذکورہ صفحے پر انشاؔ کا ایک شعر ان الفاظ کے ساتھ رقم کیا ہے: ’’انشاؔ کے اس شعر کا مصرعِ اوّل صنعتِ رقطا میں ہے اور مصرعِ ثانی صنعتِ خیفا میں ہے:
شہ بلند نسب، اب مجھے سبھی دیوے
جبین لامع زینت حصول جشن مرام‘‘
دوسرے مصرعے پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس کا پہلا لفظ ’’جبین‘‘ منقوطہ، دوسرا لفظ ’’لامع‘‘ غیر منقوطہ، جب کہ آگے الفاظ میں ’’زینت‘‘ منقوطہ، ’’حصول‘‘ غیر منقوطہ، ’’جشن‘‘ منقوطہ اور ’’مرام‘‘ غیر منقوطہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔