لگ بھگ تیس برس پہلے کی بات ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ مینگورہ کے مضافاتی بستی قمبر میں ایک آدمی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سے تعلق ہے۔ مدرسہ کا فارغ التحصیل نہیں۔ جدید تعلیم یافتہ اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہے۔ داڑھی منڈواتا ہے، لیکن محلہ کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتاہے اور کمال کا حق گو مبلغ اور داعی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس آدمی کا نام ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل ہے۔ چوں کہ پڑھاکو آدمی تھے، اس لیے جلد ہی جماعتِ اسلامی میں شامل ہوگئے۔ جماعتِ اسلامی میں لکھنے پڑھنے کا بہت رواج ہے۔ ظاہر ہے، ڈاکٹر صاحب نے بہت کچھ پڑھا اور پھر لکھنا شروع کیا۔ پہلی کتاب قاضی حسین احمد صاحب کی زندگی اور جدوجہد پر لکھی۔ کتاب اچھی تھی لیکن اس کو اتنی پذیرائی نہیں ملی، جتنی کہ ملنی چاہیے تھی، یا جتنی ڈاکٹر صاحب کوتوقع تھی۔ بجائے اس کے کہ مایوس ہوتے، مزید لکھنے لگے۔ اب تک لگ بھگ بیس کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان میں مذکورہ کتاب کے علاوہ ’’تصوف کی دنیا‘‘، ’’غریبی میں نام پیدا کر‘‘، ’’مسلمان عورت اور یورپی سازشیں‘‘، ’’طہارت سے نماز تک‘‘، ’’مولانا مجھے آپ سے شکایت ہے‘‘، ’’ژوندی خیالونہ‘‘، ’’یو طرز دوہ خیالونہ‘‘، ’’مونگ اللہ سنگہ بیاموند‘‘، ’’کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں‘‘، ’’بہت رسوا ہوئے ہم تارکِ قرآں ہوکر‘‘، ’’حقیقی ذکر الٰہی کیا ہے؟‘‘،’’قلم ہے تلوار نہیں‘‘، ’’کیا موت نئی زندگی کاآغاز ہے‘‘ اور ’’نوک قلم سے‘‘ آپ کی تصانیف میں شامل ہیں۔
ان میں سے ایک کتاب ’’مونگ اللہ سنگہ بیاموند‘‘ دراصل ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی کتاب کا پشتو ترجمہ ہے۔ اس میں اُن نومسلم خواتین کی آپ بیتیاں بیان کی گئی ہیں جن کو اللہ تعالا نے ہوش و حواس اور مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔ محترم فضل ربی راہیؔ صاحب سمیت کئی اہلِ قلم نے اس ترجمہ کی تعریف کی ہے۔ میری نظر میں بھی یہ ڈاکٹرصاحب کا ایک کارنامہ ہے۔ کتاب بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے اور اس قابل ہے کہ اس کو گھر میں رکھا جائے اور وقتاً فوقتاً نہ صرف خود پڑھا جائے، بلکہ اہلِ خانہ کو بھی پڑھ کر سنایا جائے۔
’’مولانا مجھے آپ سے شکایت ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب کی جرأتِ رندانہ کا ایک اور شاہکار ہے جس میں مذہبی طبقہ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر صاحب نے آخرت کے لیے تو ضرور توشہ بنایا ہے، لیکن دنیا خطرے میں ڈال دی ہے۔ ملا اور مولانا کا ہمارے معاشرے میں بہت بڑا کردار اور اثر و رسوخ ہے۔ ملا جب اپنے اس اہم ترین کردار کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے، تو دکھ اور شکایت قدرتی امر ہے لیکن ملاکی شکایت کرنے میں اکثر یہ غلطی ہوتی ہے کہ نام ملا کا لیا جاتا ہے اور نشانہ پر دین کو رکھا جاتاہے۔ اس طرح کی تنقید سے اصلاح کی بجائے مزید فساد پیدا ہوتاہے لیکن ڈاکٹر صاحب کا اندازمختلف ہے۔ انہوں نے دین کو بچانے کے لیے ان لوگوں کو نشانہ پر لینے کی کوشش کی ہے جو دین کو صرف کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔
آپ کی ایک اور کتاب ’’قلم ہے تلوار نہیں‘‘، روزنامہ آزادی اور چاند میں شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ہے۔ اس میں کئی کالم ایسے ہیں جو دوسرے ہزاری کے پہلے عشرے میں سوات سے ہونے والی تاریخی نقلِ مکانی کے بارے میں ہے۔ فوجی آپریشن کے لیے نقلِ مکانی کرنے والے معزز لوگوں کو دوسرے شہروں میں مکانات کرائے پر لینے اور رہائش کے دوران میں جن صبرآزما اور اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا، ڈاکٹر صاحب نے ان کا بے لاگ احوال بیان کیا ہے اور مستقبل میں مؤرخ کے لیے پیدا ہونے والی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سامان کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی بعض کتابوں پر میرا تبصرہ منفی ہے۔ اس لیے منفی تبصرہ سے پہلو بچاتے ہوئے اس پر بات ختم کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں اضافی آمدن سے کسی زمانے میں کتے بلیاں اور بٹیر پالنے کا رواج تھا۔ آج کل گھرجائیداد اور مکانات بنانا عام ہے، لیکن ڈاکٹر امیرفیاض پختون معاشرے کے وہ سرپھرے ہیں، جنہیں کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا شوق سمایا ہوا ہے اور یہ شوق بہرحال قابل تعریف ہے۔
………………………………………………………….