حشو (عیبِ سُخن)

حشو اُس زائد لفظ کو کہتے ہیں جس کے حذف کرنے سے کلام میں حسن پیدا ہوجائے اور ظاہر ہے کہ جس شے کا حذف وجودِ حسن کا باعث ہو، اُس کی موجودگی شعر میں یقیناً معیوب ہوگی۔ مثلاً
سمجھا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو مَیں
مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو مَیں
(میرؔ)
آخر ہماری خاک تو برباد ہوگئی
اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی
(میرؔ)
میرؔ کے ان اشعار میں ’’تو‘‘ بالکل زائد ہے، اسی کو حشو کہتے ہیں اور یہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
(سید فضل الحسن حسرتؔ موہانی کی تصنیف ’’نِکاتِ سخن‘‘ ، مطبوعہ ’’الفیصل‘‘، سنہ اشاعت 2014ء، صفحہ نمبر 170 سے انتخاب)