تاریخ پڑھنے سے ہمیں یہ آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ ایک خاص وقت میں انسانی کردار کس طرح سوچتے تھے اور اُس دور میں رونما ہونے والے واقعات پر انہوں نے کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ کی اصل سنسنی، تاریخ واقعات کی کھوج لگانے اور چھپے ہوئے رازوں سے پردہ اٹھانے میں ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ پڑھنے والوں کی اپنی تاریخ میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کی نسبت ہمارے ہاں یعنی سوات میں تاریخی واقعات میں زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے۔ پڑھنے والے اپنے ماضی کے بارے میں پڑھ کر لطف اٹھاتے ہیں اور ساتھ ہی مصنفین اور محققین کی کاوشوں کو بھی سراہتے ہیں۔
سوات کی تاریخ حیرت انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ ایک اچھا شگون ہے کہ تحقیق کی نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ طلبہ اعلا تعلیم کے حصول کے دوران سوا ت پر تحقیق کے لیے یہاں کی شخصیات، مقامات، واقعات اور تاریخ کے ایک خاص دور کا انتخاب کرتے ہیں اور یونیورسٹیاں بھی ان علاقوں کی تاریخ لکھنے اور کھوجنے میں طلبہ کو ضروری مدد فراہم کر رہی ہیں۔
تاریخ، شخصیات کے بغیر نامکمل ہے اور یہ ان کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ سوات کے ماضی کے بارے میں پڑھتے ہوئے کچھ نام بہت نمایاں ہیں۔ ان میں ایک ایسا ہی نام سید عبد الجبار شاہ کا ہے، جو اپریل 1915ء سے ستمبر1917ء تک سوات کے حکمران رہے۔ اس تحریر میں ان کا سوات میں اثر و رسوخ اور یہاں کے معاملات پر ان کا اثر انداز ہونا زیرِ بحث نہیں۔ کیوں کہ یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس کے متعلق لوگوں میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سید عبدالجبار شاہ کا تعلق سوات کی سرزمین سے نہیں تھا اور ان کی حکمرانی کا دور محض ڈھائی سال پر محیط رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں ہمارے ہاں یعنی سوات میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ ان کی طرزِ زندگی، ان کی خدمات، بعض خامیوں اور اس طرح کے دیگر امور کی ابھی تک پوری طرح سے کھوج نہیں لگائی جاسکی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے بارے میں جاننے کے لیے قارئین میں کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔ سید عبدالجبار شاہ کی سوات آمد، دورِ حکمرانی، مذہبی عقائد اور اس کے بعد یہاں سے چلے جانے کی وجوہات کے بارے میں بہت کم مستند مواد دستیاب ہے۔ علاوہ ازیں ریاست امب اور حیدر آباد (دکن) میں ان کے قیام اور ذمہ داریوں کے متعلق بھی ایک جامع اور علمی تحقیق کی ضرورت ہے۔
راقم نے اس سے پہلے سید اکبرشاہ، سید عبدالجبار شاہ اور ستھانہ اور ملکا گاؤں کے متعلق تین کالم لکھے تھے جو کہ روزنامہ آزادی میں 2019ء کو شائع ہوئے تھے۔ یہ مضامین ’’لفظونہ ڈاٹ کام‘‘ اور ’’سوات انسائیکلو پیڈیا ڈاٹ کام‘‘ پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ زیرِ مطالعہ تحریر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس کا مقصد سید عبد الجبار شاہ کے بارے میں کچھ اور تفصیلات فراہم کرنا ہے۔
سب سے زیادہ اہمیت اور وقعت ان باتوں کی ہوتی ہے جو کہ انسان اپنے بارے میں لکھتا ہے اور یہ دوسروں کی رائے اور تشریح کے مقابلے میں زیادہ وزنی اور مستند ہوتی ہیں۔ اپنے بارے میں لکھی گئی باتوں کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ کسی بڑے حکومتی اہلکار کو ایک خط کی صورت میں لکھی جائیں۔ اس نکتہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے راقم نے ایک مفصل خط سے کچھ اقتباسات اٹھائے ہیں۔ مذکورہ خط سید عبد الجبار شاہ نے اس وقت کے چیف کمشنر، صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کو 2 اکتوبر 1914ء کو لکھا تھا۔ انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا یہ خط انہوں نے اس وقت لکھا تھا، جب انہوں نے سوات کے حکمران کے طور پر ذمہ داری نہیں سنبھالی تھی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ’’نارتھ ویسٹ فرنٹیئر پراوِنس‘‘ (اب خیبر پختون خوا) 1931ء تک چیف کمشنر صوبہ رہا اور چیف کمشنر اس صوبے کا انتظامی سربراہ ہوا کرتا تھا۔ شاہی ریاستوں سمیت صوبے سے متعلق تمام اہم فیصلے چیف کمشنر ہی حکومتِ ہند کی منظوری کے بعد کیا کرتا تھا۔ یہاں یہ بھی وضاحت کروں کہ اس مضمون میں اُس تفصیلی خط کے صرف وہی حصے نقل کیے جا رہے ہیں جن میں سید عبدالجبار شاہ ا پنے ماضی، برطانوی حکومت اوراس کے عہدیداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ تفصیلی خط ڈائرکٹوریٹ آف آرکائیوز، پشاور (Directorate of Archives and Libraries, Peshawar) میں دستیاب ہے، او ر تصدیق کے لیے اس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
سید عبدالجارشاہ نے چیف کمشنر کو کچھ یوں لکھاتھا:
’’مَیں انتہائی عاجزی اور احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھ سے گذشتہ 25 جون 1914ء کو نتھیا گلی میں جو انٹرویو لیا تھا، مَیں نے اس میں (سوات پر) اپنے خاندانی دعوے کے متعلق تمام حقائق آپ کے نوٹس میں لائے تھے۔ میرے نانا سید سید اکبر شاہ انگریزوں کی حکمرانی کے آغاز سے پہلے ہزارہ کے حکمران تھے اور اس کے بعد سوات کے حکمران رہے۔ 1857ء میں ان کی وفات کے بعد ، بدقسمتی سے میرے خاندان نے برطانوی حکومت کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کیا اور مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اسی وجہ سے سوات پر ان کی گرفت ختم ہوئی۔ میرے والد شہزادہ سید محمود شاہ نے سن 1858ء میں ایک سو سوارا (Sawara)کے ساتھ بطورِ رسالدار برطانوی حکومت کی خدمات انجام دیں (یعنی سروس کا آغاز کیا۔) اس طرح ستھانہ (سید عبدالجبارشاہ اور سید اکبر شاہ کا آبائی گاؤں ) میں ہمارے حقوق کو برقرار رکھا گیا اور آپ کی مہربانی سے مجھے ستھانہ (دوبارہ) تعمیر کرنے کی اجازت ملیـ۔‘‘
سید عبدالجبار شاہ آگے لکھتے ہیں: ’’کوئی اہم قدم اٹھانے سے پہلے (جب سوات سے جرگہ میرے خاندان کے ہاں ملکا گاؤں، بونیر آیا، تاکہ میں ان کاحکمران بن کر سوات جاؤں) مَیں نے اس معاملے کی ذاتی طور پر تحقیقات کیں اورجب مَیں پوری طرح مطمئن ہوا کہ سوات کے یہ قبائل ایک سربراہ مقرر کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں اور انہیں ایک حکمران کی ضرورت ہے، تو مَیں نے اس جرگہ کی آمدکے بعدآپ کو تمام حقائق سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں نوابِ امب نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ ’’اس وقت کوئی قدم نہ اٹھاؤ، جب تک برطانوی حکومت کو تمام حقائق سے پوری طرح سے آگاہ نہ کرو۔‘‘ مَیں ذاتی طور پر بھی کوئی ایسا اقدام اٹھانے کے حق میں نہیں تھا کہ جو حکومت کی خواہش کے خلاف ہو۔ آپ کو تمام حالات سے آگاہ کرنے کے بعد مجھے آپ کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ برطانوی حکومت کو میری ایسی کسی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہوگا، جس کے ذریعے میں سوات کے علاقے پر اپنے خاندانی حقوق کی دعویداری کے لیے کوئی قدم اٹھاؤں۔ آپ نے یہ بھی بتایا تھا کہ برطانوی حکومت یاغستان (سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں کو اس وقت یاغستان بھی کہا جاتا تھا) کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور حکومت کی خواہش صرف یہ ہے کہ سوات کے علاقے سے جو سڑک (چکدرہ سے چترال تک سڑک کی طرف اشارہ ہے) گزرتی ہے، وہ محفوظ ہو اور سرحد کے اس حصے کے امن میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ کیوں کہ یہ حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگرمیری حکمرانی سے سوات کے داخلی امور میں بہتری آتی ہے، تو یہ برطانوی حکومت کی ایک طرح سے خدمت ہوگی۔ آپ نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ مجھے سوات اور باجوڑ کے دیگر معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے۔ کیوں کہ 12 جون کو باجوڑ میں نوابِ دیر کے بھائی میاں گل جان مارے گئے ہیں۔ آپ کی ان ہمدردانہ تجاویز کے بعد مَیں نے آپ کو یقین دلایا تھا کہ جب تک میں سواتیوں کے خلوص اور اطاعت سے اپنے آپ کو پوری طرح مطمئن نہ کرلوں، تب تک مَیں اس معاملے میں فیصلہ کن قدم نہیں اٹھاؤں گا اور اگر خدانخواستہ مَیں نے کوئی ایسا قدم اٹھایا، تو میں چکدرہ تا چترال سڑک کی حفاظت کا پوری طرح ذمہ دار ہوں گا۔‘‘
سید عبدالجبار شاہ مزید لکھتے ہیں:
’’ 8 ستمبر 1914ء وہ تاریخ تھی، جب مجھے بونیر فورسز (لشکر) کے ساتھ سوات میں داخل ہونا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سوات اور باجوڑ کے عوام نے بھی معاہدے کے مطابق اپنے وعدے پورے کرنا تھے۔ مَیں نے دو مہینے سے زیادہ عرصہ تک اس مقصد کے حصول کے لیے دن رات محنت کی تھی اور فوج کو اکٹھا کرنے کے لیے مجھے بہت بڑی رقم خرچ کرنا پڑی تھی۔ اس کے علاوہ مَیں نے تمام حالات سے برطانوی حکومت کو پوری طرح آگاہ کیے رکھا۔ مجھے پوری طرح یقین تھا کہ حکومت کی طرف سے اب کوئی رکاوٹ میر ے راستے میں حائل نہیں ہوگی، اور نہ میر ی پیش قدمی کو روکا ہی جائے گا۔ مَیں پوری طرح مطمئن تھا کہ برطانوی حکومت مجھے اپنا ایک و فادار اور حامی سمجھے گی، اور میرے ساتھ دوستی والا معاملہ کرے گی۔ میرے ذہن میں برطانوی مفادات کا تحفظ ہی سب سے اولین ترجیح تھا، لیکن مجھے یورپ کی جنگ کی پیش رفت کا کوئی علم نہیں تھا (1914ء میں پہلی جنگِ عظیم چڑھ گئی تھی۔) میری طرف سے ہر قسم کی تیاری ہوچکی تھی اور تمام ضروری اقدمات کیے گئے تھے۔ جب میں اصل ہدف سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور سوات میں میرے مجوزہ داخلے میں صرف تین دن باقی تھے، تو مجھے خواجہ محمد خان کے ذریعے (جو کہ جنرل ولکوکس کے اے ڈی سی ہیں) مردان کے اسسٹنٹ کمشنر میجر بروس سے اطلاع آئی کہ مجھے ان سے فوراً ملنا چاہیے۔ چناں چہ مَیں نے ایساہی کیا اور 6 ستمبر کو میجر بروس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے مجھے سوات کے لوگوں اور کچھ مقامی عہدیداروں کی چالاکی کے بارے میں خبردار کیا، اوربتایا کہ یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تمہارا استعمال کررہے ہیں اور ایسے مشکلات پیداکرسکتے ہیں جو تمہارے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ چوں کہ اب یورپ میں جنگ جاری ہے، اس لیے بونیر فورسز (لشکر) کے ساتھ سوات میں داخلے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس بات چیت کے بعد مَیں نے ان کو وہ تمام خط و کتابت دکھائی، جو اس سے پہلے میرے اور سوات، دیر اور باجوڑ کے لوگوں کے مابین ہوچکی تھی۔ مَیں نے ان کو عرض کیا کہ میں برطانوی حکومت کے مفادات کے لیے اپنے مفادات کی قربانی دینے کو تیار ہوں، لیکن یہ قربانی اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی برطانوی حکومت کسی بھی دوسرے وفادار شخص سے توقع کر سکتی ہے۔‘‘
سیدعبدالجبارشاہ اپنی اس طویل خط کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
’’مَیں نے اسسٹنٹ کمشنرکو یہ بھی عرض کیا کہ میں یہ دیکھنے سے قاصر ہوں کہ اس بھاری قربانی کا (یعنی انگریز حکومت کے کہنے پر سوات کی حکمرانی کا ارادہ ترک کرنا) مجھے کیا معاوضہ ملے گا؟ جواب میں میجر بروس نے مجھے بتایا کہ وہ نتھیا گلی میں آپ (یعنی چیف کمشنر)کے سامنے ذاتی طور پر میرے اس معاملے کو رکھیں گے، لیکن وہ پھر بھی یقینی بات کرنے سے قاصر تھے۔ اب مَیں نے برطانوی حکومت کی خواہشات کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے قیمتی مفادات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اس ملاقات میں میجر بروس نے مجھے ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ (سوات، دیر اور چترال کے پولی ٹیکل ایجنٹ کی طرف اشارہ ہے) کے ساتھ ملاقات کرنے کا بھی کہا۔پولی ٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ نے ملاقات کے دوران مجھے مزید متنبہ کیا کہ اگر مَیں نے حکمران کی حیثیت سے سوات میں داخلے کا ارادہ ترک نہیں کیا، تو ردِ عمل کے طور پر انگریز حکومت، نوابِ دیر کی مدد کرے گی۔ پولی ٹیکل ایجنٹ کے اس بات چیت کے بعد مَیں نے اب بطورِ حکمران سوات جانے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ اس ملاقات کے بعد میں ملکا، بونیر واپس گیا اور اپنے اہلِ خانہ اوردیگر لوگوں کو آگاہ کیا کہ اب اس معاملے میں برطانوی حکومت کی خواہشات کے منافی کوئی اقدام اٹھانا ہمارے لیے مناسب نہیں۔ مَیں اب ستھانہ میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ مَیں آپ کے سامنے تمام معاملات رکھتا ہوں اور عاجزی کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ مذکورہ بالا باتوں کی حقیقت ایک انکوائری کے ذریعے معلوم کی جاسکتی ہے۔‘‘
سید عبدالجبارشاہ اپنی با ت کو کچھ یوں آگے بڑھاتے ہیںـ:
’’مَیں یہ عرض کروں گا کہ میری وفاداری کے لیے کسی قسم کے ثبوت کی ضرورت نہیں۔ مَیں نے برطانوی حکومت کی خواہشات کے لیے اپنے مفادات کی قربانی دی ہے۔ اس قسم کی قربانی کی بہت کم مثالیں یہاں ملیں گی۔ ممکنہ طور پر یورپی جنگ کے خاتمے کے بعد معاملات بدل جائیں گے، لیکن میر ا نہیں خیال کہ مستقبل میں اس طرح کے اتفاقی حالات دوبارہ ایک ساتھ رونما ہوسکتے ہیں۔ اب عملی طور پر مَیں نے ایک بڑی ریاست کی حکمرانی کا ارادہ ترک کردیا ہے جس کا حصول دوبارہ برطانوی حکومت کی مدد اور حقیقی حمایت کے بغیر ایک ناممکن کام لگتا ہے۔ میجر بروس اور ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ کی ہدایات کی وجہ سے مَیں نے ا پنے مفادات کی بھاری قربانی دی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انگریز حکومت میر ی اس بڑی قربانی کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے، اور مجھے اس کے بدلے میں کیا فراخ دلانہ معاوضہ دے گی؟ آیا مجھے معاوضے کی شکل میں فوری طور پر پنشن یا جاگیر دی جائے گی، یا جنگ کے اختتام پر مجھے سوات کی حکمرانی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی جائے گی؟ مَیں آپ کو یقین دلاتے ہوئے التجا کرتا ہوں کہ برطانوی حکومت کے مفادات میرے ذہن میں اولین حیثیت رکھتے ہیں، اور اسی وجہ سے مَیں نے برطانوی حکومت کی خواہشات کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے بہت ہی قیمتی مفاد کو ترک کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی۔ مجھے حکومت کے انصاف پسندی پر پورا اعتماد ہے، اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اس بھاری قربانی کا پورالحاظ کر ے گی، اور اس بدلے میں معاوضے کی ادائیگی کرے گی۔
آپ کا تابع فرماں سید عبدالجبار شاہ، شہزادہ ستھانہ ، سی؍ او تھانہ، توربیلہ، ضلع ہزارہ، بمورخہ 2 اکتوبر 1914ء۔‘‘
قارئین، اس مفصل خط کی ایک کاپی سید عبد الجبار شاہ نے اطلاع کے لیے وائسرائے ہند کو بھجوا ئی تھی۔ یہ خط دلچسپ انکشافات سے مزین ہے اورسید عبدالجبارشاہ کے بارے میں کچھ بنیادی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے برطانوی حکومت کے اعلا عہدیداروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ زمینی حقائق سے پوری طرح باخبر تھے کہ انگریزحکومت سے منظوری لیے بغیر وہ سوات کا اقتدار حاصل نہیں کرسکیں گے۔ چناں چہ انہوں نے علاقے کی مجموعی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سوات آنے کا منصوبہ وقتی طور پر ترک کیاتھا۔ اس کے بعد رونماہونے والے دلچسپ واقعات اور ان کی بحیثیتِ حکمران سوات آمد کے بارے میں تفصیل آئندہ اقساط میں دی جائے گی۔
(نوٹ:۔ سید عبد الجبار شاہ کے انگریزی میں لکھے گئے اس خط کے ہو بہو الفاظ راقم کے انگریزی آرٹیکل میں پڑھے جاسکتے ہیں جو کہ ’’سوات انسائیکلو پیڈیا ڈاٹ کام‘‘ پر آن لائن دستیاب ہیں، شکریہ!)
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔