میٹرک کے امتحانات ختم ہوگئے۔ معمول کے مطابق سارے دوستوں نے ایک مخصوص کالج میں جانے کے جھوٹے سچے وعدے کئے، مگر ہمیں کیا پتا تھا کہ ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں، وہاں پہ ایسے وعدے کرنا اپنے احساسات کو تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ جب لوگ اتفاق، اتحاد اور محبت کے ساتھ بہت عرصے تک رہے، تب اگر اچانک ماحول اور صورتحال یکسر بدل جائے، تو انسان کو نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگتا ہے۔ خیر، سکول کی زندگی ختم ہوگئی۔ اب سب رزلٹ کے انتظار میں تھے کہ کب رزلٹ آئے گا، تاکہ ہم ایک بار پھر سے اپنے دوستوں کے ساتھ اسی پرانے بنچ پر بیٹھ کردوبارہ سے پڑھ سکیں گے اور ہمارے درمیان جو خلا ہے، وہ جلد از پُر ہوجائے۔
خدا خدا کرکے آخر رزلٹ آہی گیا۔ شکر اللہ کا، ہم سب خیر سے پاس ہوگئے۔ ہم میں سے کسی کے زیادہ تو کسی کے کم نمبرات آئے، مگر خدا کا شکر ہے کہ کوئی فیل نہیں ہوا۔ اب کیا ہونا تھا، کالج کے داخلے شروع ہوگئے۔ اولین ترجیح تو سب کی ریاستی دور کا جہانزیب کالج تھی۔ ہر کوئی اس دوڑ میں تھا کہ اس سرکاری کالج میں اسے داخلہ ملے۔ ہم سب نے مل کر مذکورہ کالج میں ایک امید کے ساتھ داخلہ فارم جمع کرائے۔ پھر اس کے بعد سے انتظار کا ایک طویل سفر شروع ہوا کہ اب دوبارہ وہاں سے سفر شرو ع ہوگا جہاں ایک وقتی وقفہ آیا تھا۔ مطلب کہ میرٹ کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ انتظار تمام ہوا، میرٹ لسٹ لگ گیا اور لگتے ہی ہماری امیدوں پر پانی پھیر گیا۔ صورتحال کچھ یوں بنی کہ جس کے نمبرات زیادہ تھے، وہ جہانزیب کالج میں داخل ہوگئے۔ کلاس کے کل تریالیس طلبا میں سے چند ایک کو ہی بمشکل مذکورہ کالج میں داخلہ ملنے کا شرف حاصل ہوا۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ریاست کے بنیادی فرائض میں تعلیم کی فراہمی بھی شامل ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ صرف ان کو ہی ریاست کی طرف سے تعلیم کا حق دیا جائے گا، جن کے ’’مارکس‘‘ زیادہ ہوں۔ ورنہ آپ کا خدا ہی حافظ ہے۔ باقی ماندہ طلبہ کیا کریں گے؟ ہماری کلاس کے طلبہ میں سے وہی تعلیمی سفر جاری رکھ سکتے تھے، جو کسی نواب یا حاجی صاحب کے بیٹے تھے۔ یعنی حاجی صاحب اور نواب کے بیٹے اگر مارکس نہیں بھی لیں گے، تو کوئی بات نہیں۔ ان کا راستہ کوئی مائی کا لعل نہیں روک سکتا۔ وہ کسی پرائیوٹ کالج میں داخلہ لیں گے۔ باقی طلبہ میں سے پندرہ ایسے تھے جو کسی نہ کسی ذریعہ سے پرائیوٹ کالج یا انسٹی ٹیوٹ میں چلے گئے اور انہیں تعلیمی سفر میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔ نواب صاحب اور حاجی صاحب کے بچوں کے نمبرات کی اوسط ساٹھ اور ستّر کے درمیان تھی۔ باقی اٹھارہ دوستوں کی اوسط زیادہ تو تھی، مگر اتنی بھی نہیں کہ جہانزیب کالج کے معیار پر پورا اترسکتے۔ ان کا اصل مسئلہ فیس کا تھا اور وہ فیس برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔اب یہ اللہ کے اٹھارہ بندے ایک طرح سے ملک اور معاشرہ پر بوجھ ہیں۔
یہ تھی میرے سکول کی کہانی۔ اس سے ہٹ کر اور کتنے سکول ایسے ہوں گے جہاں بے شمار طلبہ تعلیم سے محروم ہوگئے ہوں گے۔ اور اگر ہمارا یہ خیال ہے کہ کوئی غریب جہانزیب کالج میں پڑھ کر آگے کسی اچھی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں پڑھ سکے گا، تو یہ محض ایک خیال ہی ہے۔ نواب اور حاجی صاحب کے بیٹوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ انہیں پینسٹھ فیصدمارکس پر ہی میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل جاتا ہے۔باقی ماندہ طلبہ کو نوے فیصد نمبرات کے باوجود داخلہ نہیں ملتا۔کیوں کہ وہ نہ تو لاکھوں کی فیس برداشت کرسکتے ہیں اور نہ لاکھوں کے سالانہ دیگر اخراجات۔ پیسہ ہے تو تعلیم ہے، نہیں تو پھر آپ کا خدا حافظ۔ کیوں کہ ریاست اپنے اوپربے کار لوگوں کا بوجھ ڈالنے کے لئے تیار ہے، مگر اس کا حل نکالنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔