پاکستان کی تاریخ سیاست دانوں سے بھری پڑی ہے۔ سیاست کے میدان میں بڑے بڑے سیاست دان آئے اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلے گئے۔ اس میدان میں بلوچستان کا ایک شخصیت جو اَب اس دنیا میں نہیں رہی، وہ ہے میر ظفر خان اللہ جمالی۔
جمالی صاحب پاکستان کی سیاست کا ایک اہم باب تھے۔ سیاست میں قد کاٹھ کی بدولت وہ واحد وزیراعظم پاکستان بنے، جو صوبہ بلوچستان سے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام بطورِ وزیراعظم پاکستان رقم کیا ۔
جمالی مرحوم یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں لاہور کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور ایچ ای سن کالج سے مزید تعلیم حاصل کی۔ 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہورسے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔
جمالی مرحوم کا شمار سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ روایات کے پابند تھے، جن میں دوستی اور تعلقات نبھانا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے۔
ظفر اللہ خان جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں، تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے۔ میر عبدالرحمان جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔
ظفراللہ خان جمالی کی شادی خاندان ہی میں ہوئی، اس خاتون سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ دو بیٹے شاہنواز اور جاوید پاک فوج میں افسر ہیں، جب کہ تیسرے فرید اللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں۔1997ء میں رکنِ قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔
ظفراللہ جمالی نے باقاعدہ طور پر 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔وہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اور صوبائی وزیرِ خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیرِ مملکت خوراک و زراعت بنے۔ 1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلامقابلہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔ 1988میں جب صدر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا، تو انہیں وزیر ریلوے لگا دیا۔ 1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ بعد میں قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب برقرار رکھا۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے، لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ 1993ء میں کامیاب ہوئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیرِ اعلیٰ رہے۔ 1997ء میں سینٹ کے رُکن منتخب کیے گئے۔ 2002ء کے انتخابات میں ان کو پارلیمنٹ نے وزیر اعظم منتخب کیا۔ انہوں نے 21 نومبر 2002ء کو ملک کے پندرہویں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا اور 2004ء تک بطورِ وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ 26 جون 2004ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفا دے دیا۔
میر ظفر اللہ خان جمالی نامور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اسپورٹس مین بھی تھے۔ وہ والی بال، کرکٹ اور ہاکی کے نہ صرف شوقین تھے، بلکہ تینوں کھیلوں میں اچھے کھلاڑی کے طور پر جانے بھی جاتے تھے۔ وہ 2006ء سے 2008ء تک پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔
میر ظفراللہ خان جمالی کو پچھلے اتوار کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سی سی یو میں داخل کیا گیا تھا، جہاں ان کی طبیعت سنبھل نہ سکی۔ ڈاکٹرز نے تین دن قبل ظفر اللہ خان جمالی کو وینٹی لیٹر پر رکھا تھا، مگر ہزارکوشش کے باوجود وہ ان کو بچا نہ سکے اور 76 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔
دکھ کی اس گھڑی میں کالمسٹ برادری ان کے خاندان کے ساتھ ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔