12 اکتوبر، جو میں جانتا ہوں!

یہ سطور تحریر کرتے وقت 12 اکتوبر ہے۔ یہ شاید کچھ دن بعد شائع ہوں، لیکن لکھی بارہ اکتوبر ہی کو ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء وہ دن تھا جب اس ملکِ عظیم پر پانچویں بار مارشل لا مسلط کیا گیا۔ ویسے سکندر مرزا اور ایوب خان بلکہ یحییٰ خان تک مارشل لا کا تسلسل رہا، لیکن چوں کہ آمروں کی ترتیب مختلف ہوئی، اس لیے ہم بارہ اکتوبر کو پانچواں مارشل لا ہی گنتے ہیں۔ یہ وہ سیاہ دن تھا جب ملک میں ایک دفعہ پھر جبر کی سیاہ رات کا اجرا ہوا۔ پھر 2007ء تک قریب آٹھ سال قوم ایک 22 گریڈ کے ملازم کو مالک و مختار کے روپ میں بھگتتی رہی۔ 12 اکتوبر بارے کبھی اصل کہانی عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔ ویسے امید ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف چوں کہ اب نیلسن میڈیلا، چہ گویرا بلکہ ان کے کچھ فین کے مطابق امام خمینی کا روپ ہیں، تو شاید ہمت کریں اور قوم کو سچ بتائیں۔ بہرحال یہ چوں کہ اتنی پرانی بات تو ہے نہیں، اس لیے بہت کچھ تو کافی تک مکمل اور واضح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ شروع ہوا کارگل سے ، جس کی انتہا 12 اکتوبر کو ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کی حکومت جو میاں نواز شریف کی تھی، سے ڈھیر ساری غلطیاں سرزد ہوئی تھیں۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا۔ میڈیا پر جبر کا دور دورہ تھا، لیکن اس کے باجود ملک میں مارشل لا کا قطعی جواز نہ بنتا تھا۔ حتی کہ عدلیہ کے ساتھ وزیراعظم کی محاذ آرائی کا وقت بھی گزر چکا تھا، لیکن تب بھی مارشل لا نہ لگا، تو 12 اکتوبر کو تو قطعی جواز نہ بنتا تھا۔ آئیں دیکھیں کہ اصل کہانی کیا ہے؟
سابق وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو نے ایک دفعہ یہ بات کہی تھی کہ جرنل مشرف جب راولپنڈی میں فوج کی پالیسی اور پلاننگ کے سربراہ تھے، تو غالباً انہوں نے 94, 95ء کو ایک منصوبہ بنایا جو کارگل کی جانب پیش قدمی کرکے بھارت کو کشمیر پر سمجھوتا کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ محترمہ نے یہ کہا کہ جب یہ منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا گیا، تو انہوں نے فوجی قیادت کو یہ واضح کہا کہ ممکن ہے فوجی حساب سے آپ کا منصوبہ مکمل ہو، لیکن بعد میں اس کو بین الاقوامی سیاست میں کنٹرول کرنا ناممکن ہوگا۔ بین الاقوامی چوہدری بلکہ ہمارے اپنے نام نہاد برادر اسلامی ممالک بھی اس مسئلہ پر ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔ اس لیے یہ منصوبہ کسی طور پر بھی قابلِ عمل نہیں، بلکہ ممکنہ طور پر یہ منصوبہ آخرِکار ہمارے واسطے سخت خسارے کا سودا ہوگا۔ سو محترمہ نے اس منصوبہ کو مسترد کرکے اس کی اجازت نہ دی، لیکن یہ منصوبہ مشرف کے ذہن اور فائلوں میں رہا اور پھر جب وزیرِاعظم نواز شریف بنے، اور جرنل مشرف کو آرمی چیف بنا دیا گیا، تو جرنل مشرف نے ایک دفعہ پھر یہ منصوبہ حکومت کے سامنے رکھا۔ ویسے نواز شریف کا یہ دعوا ہے کہ ان کو لا علم رکھا گیا۔ بہرحال میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف ذہنی طور پر بھی اور بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے میں محترمہ بینظیر بھٹو کے مقابل صفر ہی ہیں۔ سو انہوں نے اس منصوبہ کی آڑ میں کشمیر کی فتح دیکھی، اور فاتحِ کشمیر بننے کے خبط کا شکار ہو گئے ۔ پھر کارگل میں وہی ہوا جس کا اندیشہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا۔ پاکستان بین الاقوامی طور پر اکیلا رہ گیا۔ ادھر محاذ پر ابتدائی طور پر بھارت پریشان تو ہوا، لیکن چند دن بعد اس نے ہماری افواج کو گھیر لیا اور بہت سے سابقہ فوجی افسران کے مطابق ہماری شہادتوں کا اوسط 65 اور 71 کی جنگوں سے زیادہ تھا۔ لامحالہ فوجی قیادت کے مشورہ پر نواز شریف کو امریکہ سے رابطہ کرنا پڑا۔ امریکہ کی شرائط ماننا پڑیں اور یوں نواز شریف، کلنٹن کو درمیان میں ڈال کر اس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوئے۔ اب ملک میں ایک اپوزیشن بھی تھی۔ ذمہ داری ساری سول حکومت کی تھی۔ سو نواز شریف کے خلاف غدار کی صدائیں بلند ہوئیں۔ اس منصوبہ کی ناکامی، ملک کے اندر بدنامی اور پارلیمنٹ میں سوالات نے نواز شریف کو نفسیاتی طور پر بہت دکھ پہنچایا۔ اسی کیفیت میں نواز شریف نے اس پر ایک ’’ٹرتھ کمیشن‘‘ بنانے کا اعلان کر دیا۔ جس کو یہ ذمہ داری دینا مطلوب تھی کہ وہ اس واقعہ کی مکمل چھان بین کرے اور مکمل سفارشات کے ساتھ اس کی رپورٹ حکومت کو دے۔ بس یہی سے حکومت اور جرنیلوں کے درمیان چپقلش شروع ہوئی۔ جرنیلی سوچ یہ تھی کہ فوجی منصوبے کامیاب اور ناکام ہوتے ہیں۔ سو اس مسئلے کو دفن کیا جائے، لیکن نواز شریف کی مجبوری یہ تھی کہ اس کی پوری حکومت بلکہ سیاست داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ ہر طرف سے حتی کہ اپنی جماعت کی طرف سے بھی نواز غدار کی صدائیں اٹھ رہی تھیں۔ سو نواز شریف نے کمیشن بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور اسی نکتہ پر نواز حکومت اور جرنیلوں کی آپس میں ٹھن گئی۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ کیا مجبوری تھی، کم از کم آرمی چیف کو سری لنکا سے واپس تو آنے دیتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا نواز شریف اور اس کی ٹیم پاگل تھی؟ اگر نواز شریف یہ سازش کرتے، تو وہ کچھ پلاننگ ضرور کرتے لیکن یہ سب کو پتا ہے کہ نواز شریف ’’تندے والا فیصل آباد‘‘ میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کر رہے تھے کہ اچانک نواز شریف کو خبر ملی کہ اسلام آباد کو آج خطرہ ہے۔ سو اس نے فوراً ہیلی کاپٹر طلب کیا اور واپس آکر مشرف کو بر طرف کردیا۔بس اتنی سی بات تھی، لیکن ایک مکمل ڈراما بنایا گیا۔ جہاز اغوا کا تماشا دکھایا گیا۔ اب سادہ سی بات ہے، اگر بالفرض نواز حکومت نے یہ حماقت کی ہی تھی، تو قائد اعظم بین الاقوامی ائیر پورٹ سے ماڑی پور کا ائیر فورس کا اڈا کتنا دور تھا؟ آپ وہاں لینڈ کروالیتے۔ اب ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے بہت نامناسب طریقہ سے آرمی چیف کو برطرف کیا، لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ اگر ایسا تھا تو مشرف عدالت چلا جاتا۔ وزیراعظم کا ایکشن تو بہرحال پھر بھی آئینی تھا، لیکن ایک آمر نے کس جواز سے غیر آئینی اور غیر اخلاقی کام کیا؟ مختصر یہ کہ نواز حکومت کا خاتمہ نہ تو وزیراعظم کے کسی غیر آئینی اقدام پر ہوا، نہ کارگل کی حکمت عملی پر اور نہ کارگل میں ہونے والی پیش قدمی پر، بلکہ اس کی ایک ہی وجہ بنی اور وہ یہ کہ وزیراعظم نے اس کی تحقیق پر ایک ’’ٹروتھ کمیشن‘‘ بنانے کا عندیہ دیا جو کہ ہمارے جرنیلوں کو قطعی منظور نہ تھا۔ یہ چاہتے تھے کہ ماضی کی طرح ہر چیز کو داخلِ دفتر کیا جائے۔
مَیں تمام تر تحفظات کے باجود یہ سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں قوم کو وزیر اعظم کا ساتھ دینا چاہیے تھا، یا کم از کم اب تاریخ کی سچائی کو سامنے لانا ضروری ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بائیس گریڈ کا سرکاری ملازم جب چاہے ایک غیر آئینی و غیر اخلاقی طریقہ سے منتخب حکومت کو پلٹ کر اسلام آباد پر قبضہ کرلے اور قوم قبول کرنے پر مجبور ہو۔
البتہ 12 اکتوبر کا ایک مثبت پہلو بہرحال یہ تو ہے کہ پانچ جولائی والے اقدام کے حمایتی بھی سمجھ گئے اور اسٹیبلشمنٹ کا حمایتی ایک بڑا دھڑا کہ جس کی اکثریت پنجاب سے تھی، وہ بھی جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور سیاسی طور پر کچھ نا کچھ اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوئی۔ المختصر، اب قوم کو بحیثیتِ مجموعی ایک لکیر کا تعین کرنا ہو گا کہ اب بے شک سیاستدانوں میں لاکھ کمزوریاں ہوں، لیکن ملک کو مارشل لا سے بچا کر رکھنا ہوگا۔ اسی میں ملک کا مفاد پنہاں ہے اور یہ بذاتِ خود فوج کی عزت وقار اور بہتری کا باعث ہے۔ کیوں کہ آئے دن آمروں کی ہوسِ اقتدار نے نہ صرف ملک کے معاشی و معاشرتی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، بلکہ فوج کو بھی کمزور سے کمزور تر کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہم فوج کی کمزوری اور ملک کی سیاسی و معاشی تباہی کو کسی صورت برداشت کرنے کے روادار نہیں ہو سکتے۔ یہ ہماری ضرورت بھی ہے اور فیصلہ بھی کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا۔ اب ہم مزید کسی 5 جولائی یا 12 اکتوبر کو برداشت نہیں کریں گے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔