قارئین، کرونا کی چھٹیوں میں فارغ بیٹھنا آسان نہ تھا۔ سوچتا تھا کہ کروں، تو کیا کروں؟ کچھ نہ کچھ ذہنی مصروفیت ضرور درکار تھی۔ ایسے میں موضوعات کی تلاش جاری تھی۔ ہر طرح کا غور و خوض کیا۔ آخرِکار تحقیقی سوچ کی سوئی آکر گوجری زبان پر اٹک گئی۔ یوں مذکورہ زبان سے متعلق کتابیں مطلوب تھیں جو کہ ایک دوست عمرعلی چوہان نے فراہم کیں اور معلومات اکھٹا کرنے کی خاطر بندہ خود اہلِ زباں کے ہاں جاتا رہا۔ گوجری زبان کے متعددافرادسے اسی بابت کئی انٹرویو کیے۔ اس ضمن میں ادب، فوکلور، روزمرہ اور محاورہ، ضرب الامثال، کہاوتیں اور لہجوی و لسانوی موضوعات کی تلاش کی جوابھی تک جاری ہے۔
تحقیق کے دوران میں اور پہلو بھی سامنے آئے جیسے گوجری زبان کا ذخیرۂ الفاظ۔ اس کی خاطر اُردو زبان کے 1334 الفاظ کا ترجمہ، گوجری زبان میں اُن تاجروں، کسانوں اور چرواہوں سے کروایاگیا، جو گوجری زبان بولنا جانتے تھے۔ یہ حضرات 919 الفاظ کاکسی نہ کسی طرح ترجمہ کر بیٹھے، لیکن 415 الفاظ کی گوجری زبان میں نشان دہی نہ کرسکے، یعنی وہ 68 فی صد سوالات کے جوابات دینا جانتے تھے۔ اسی طرح 330 الفاظ گوجری اور اُردو زبان میں مشترک پائے گئے، یعنی دونوں زبانوں میں 36 فیصد الفاظ ایک جیسے ہیں۔
تحقیق کے دوران میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ گوجری زبان کے 80 فی صدسے زیادہ الفاظ لہجہ ،ہجا اوروزن کے معمولی فرق کے ساتھ ہندی آریائی زبانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔
60 الفاظ مکمل طور پر پشتونوں کے نکلے، جو گوجری زبان کو سات فی صد پشتو زبان کے زیرِ اثر ثابت کرتی ہے۔ حالاں کہ یہ اثر ثقافتی، سماجی اور تہذیبی لحاظ سے دو گنابلکہ سہ گنا بنتا ہے۔
آج کل دینی علوم کی وجہ سے عربی اور فارسی، جدید تعلیم کی وجہ سے انگریزی اور بعض مقامی زبانوں سے نزدیک ہونے کے باعث گوجری پر ان کا زیادہ غلبہ ہے۔ خصوصاً سوات میں پشتو اور اُردو زبان کے توسط سے دیگر زبانوں کے الفاظ گوجری زبان میں داخل ہو رہے ہیں۔ گوجری میں ہندی اورگجراتی زبان کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔
’’شایدتاریخِ گوجرگونج‘‘ کے مصنف چودھری اکبر خان کا یہ دعوا درست ثابت ہوتا ہے کہ شمال مغرب کے گوجروں کی زبان میواڑ اور جے پور کی راجھستانی سے ملتی جلتی ہے، تاہم مولوی عبدالمالک کے لیے یہ بات تعجب خیز ہے کہ 1858ء میں محققین السنّہ نے وادیِ سوات کے رہنے والے گوجروں کی زبان کو راجپوتانہ کے مشابہ ظاہر کیا ہے۔
سوات میں گوجری زبان کے الفاظ کا تناسب ہر جگہ ایک جیسا نہیں۔ مثلاً، گبرال میں دیگر علاقوں کے مقابلے میں گوجری زبان کے الفاظ زیادہ ہیں، جب کہ پشمال اور لائیکوٹ میں یہ تعداد بتدریج کم ہوتی جاتی ہے، جب کہ وسطی اور جنوبی علاقوں میں گوجری جسے پامبڑاخیلوں کی گوجری کہتے ہیں، یہاں بہت سارے الفاظ مذکورہ بالا علاقوں کی گوجری سے مختلف اور ایک حد تک اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں، یعنی یہاں مقامی زبانوں کے الفاظ دخیل ہیں۔ میاندم، شین، مادیات، بیاکند اور بنکارا وغیرہ جیسے کم اونچائی والے علاقوں کی گوجری میں زیادہ تر پشتو زبان کے الفاظ ہیں۔ ان کی بولی ایک حد تک اُن چرواہوں کی بولی سے مختلف ہے جو درال جیسے اونچے پہاڑوں پربسیرا کرتے ہیں۔
پس جن جن علاقوں میں گوجری بولنے والوں کی تعداد کم ہے اور اُن کا معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تمدنی انحصار میدانی علاقوں پر ہے، اُن کی گوجری میں تیزی سے دیگر زبانوں کے الفاظ داخل ہو رہے ہیں، بلکہ بعض کاروباری حضرات میں تو گوجری محض گھر میں بولنے کی حدتک رہ گئی ہے، جب کہ ایک کثیرتعداد تویہ زبان بھلاہی چکی ہے۔
قارئین، یہ بات کس قدرتعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ گوجری زبان میں اس قدر کمی رونما ہونے کے باوجود یہ ابھی تک زندہ ہے۔ گوجروں کی ایک کثیرتعدادتوپہلے ہی اپنی زبان سے نابلد تھی۔ اب جدیدیت اسے مزید نقصان پہنچا رہی ہے۔
محض ایک صدی قبل یہی صورتِ حال پنجاب میں تھی۔ ’’شاہانِ گوجر (1934ء) کے مصنف مولوی عبدالمالک لکھتے ہیں: ’’پنجاب میں گوجروں نے اپنی زبان کوپنجابی سے تبدیل کرنا شروع کیا ہے۔‘‘
وہ مزیدلکھتے ہیں: ’’جہاں ان کی آبادی دوسری قوموں کے ساتھ مخلوط تھی، وہاں گوجری زبان ایک دوپشتوں میں تبدیل ہوگئی۔‘‘
سوات کے میدانی علاقوں کے قریب بسنے والے گوجروں کاحال بھی کچھ اُن سے مختلف نہیں۔ لہٰذاگوجر تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف گوجری زبان کوزندہ رکھیں، بلکہ وہ اس میں علم وادب کے بیج بو کر ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضافہ کریں۔
……………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔