مَیں ذاتی طور پر سڑکوں، راستوں، دریاؤں اور جنگلات میں تجاوزات ختم کرنے کا حامی ہوں۔ ہماری تاریخی اور سماجی قدر ذاتی ملکیت کے گرد گھومتی ہے اور ہماری انا اور لالچ اس میں بری طرح پھنس چکی ہیں۔ دریا، راستے، سڑکیں اور جنگلات چوں کہ ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں، اس لیے جس کا جتنا زور چلے، وہ اپنی ذاتی ملکیت میں زمین کے ٹکڑے کو وسعت دیتے دیتے ایسی جگہوں پر بھی تجاوز کرجاتا ہے، جو ہوں تو سب کی، لیکن ان کی ’’اونرشپ‘‘ کسی کی نہ ہو۔ مطلب کوئی بھی ان کو اپنانے کی فکر نہ کرے۔ اس کی ایک اہم مثال ہمارے جنگلات کی مغربی پٹی میں 64 والی تقسیم ہے۔ اسی لیے جس کو جس قدر طاقت مل جائے، وہ راستوں، سڑکوں، دریاؤں اور جنگلات میں گھس جاتا ہے اور اپنی زمینیں ان مقامات میں کھینچتا رہتا ہے۔
اجتماعی ملکیت اور اس کے فائدے کا احساس کسی کو نہیں ہوتا۔ راستے، سڑکیں، دریا اور جنگلات وغیرہ ریاست کی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں۔ جب ریاست کمزور ہو اور جہاں ریاست کا برتاؤ سب شہریوں کے لیے ایک جیسا نہ ہو، تو طاقتور تجاوزات کرتے رہتے ہیں اور ریاست ان سے پوچھ نہیں سکتی۔ ہماری یہ بدقسمت ریاست صرف امیروں اور آمروں کی خدمت پر مامور رہی ہے۔ ملک ریاض جو آئے دن غریبوں کی زمینیں ہڑپ کرکے ’’ہاؤزنگ سوسائٹیز‘‘ کے نام سے امیروں اور آمروں کے لیے مکانات بناتے ہیں، ان سے کوئی نہیں پوچھتا۔ یوں وہ ہزاروں غریب گھرانوں کو بے گھر کرنے کے بعد اس داغ کو غریبوں کے لیے کوئی ’’دسترخوان‘‘ لگا کر دُھونے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ حب الوطنی کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان سوسائٹیز میں ایک آدھ مسجد بنا کر عوام سے داد لیتے پھرتے ہیں۔
ملک کے کونے کونے میں امیر اور آمر زمین میں، قانون میں، انصاف میں اور اپنے اختیارات میں تجاوز کرتے جاتے ہیں، مگر کسی کو ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ’’مونال ریستوران‘‘ ہو کہ اسلام آباد کا ’’لیک ویو سائٹ‘‘ سب پر قبضہ اور اپنی حد سے تجاوز کیا گیا ہے، مگر پوچھے کون کہ معاملہ فوراً ’’حساس‘‘ بن جاتا ہے اور ریاست کی سلامتی کو ’’خطرہ‘‘ ہوجاتا ہے۔
دوسری اہم بات پالیسیوں کی ہے۔ اسلام آباد، پشاور اور کراچی میں بیٹھے بابو کو گلگت، سوات، چترال اور کوہستان کے علاقوں کا کیا پتا؟ وہ جب بھی کسی بھی شعبے کے لیے پالیسی بناتا ہے، تو اس کی نظر میں یہی مراکز ہوتے ہیں جہاں زمین زیادہ اور پہاڑ نہیں ہوتے۔ اب پشاور میں بیٹھے بابو کو کیا پتا کہ تحصیلِ بحرین کا علاقہ ایک گھاٹی ہی ہے جہاں گھاٹی کی اوسط وسعت 200 فٹ سے زیادہ نہیں ہوگی، جہاں لوگوں کو قبر کے لیے زمین نہیں ملتی، لیکن ان بابو لوگوں نے یہاں کے لیے بھی کسی کالج یا سکول بنانے کے لیے وہی شرائط رکھی ہیں جو پشاور، چارسدہ یا مردان کے لیے ہیں۔ اسی وجہ سے اور اسی بہانے ہمارے پہاڑی تنگ علاقوں کو ایسی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔
دوسری ستم ظریفی یہ ہے کہ تھانے اور تحصیل وغیرہ کے لیے حکومت خود زمین خریدتی ہے، لیکن سکول یا کالج کے لیے زمین متعلقہ لوگوں سے مفت مانگی جاتی ہے۔ پہلی حکومتوں میں تو زمین دینے کے عوض اس کے مالک کو چوکیداری کی ایک یا دو نوکریاں دی جاتی تھیں، اور اسی وجہ سے لوگوں کو ترغیب ملتی تھی اور وہ زمین دیتے تھے، مگر حالیہ حکومتوں نے یہ نوکریاں بھی مقامی ایم پی اے کو دے کر زمین کے عوض مذکورہ پالیسی کو بھی ختم کر دیا ہے۔
اس ملک کی پالیسیاں کھانے کو دوڑتی ہیں۔ اب کی بار دریاؤں کے کنارے تجاوزات کو ہٹانے کی پالیسی آگئی ہے اور اس کو سیاحت سے جوڑا گیا ہے۔ سیاحت کا اس ملک میں تعلق صرف حسن سے جوڑا گیا ہے گو کہ سیاحت کے فروغ میں ثقافت، ورثہ، مذہب اور ماحولیات سبھی کچھ آتا ہے۔ اب سوات اور شمال کے دوسرے بندوبستی علاقوں میں تجاوزات کو گرانے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ میں اگر ذاتی طور پر اس کو پسند بھی کرتا ہوں، تو نگاہ دوسرے معاملات کی طرف بھی جاتی ہے اور دکھ اور بڑھ جاتا ہے۔ اگر تجاوزات طاقتور طبقے سے بھی گرادیے جاتے، ان کو دوسروں کے معاملات میں تجاوز کرنے سے روکا جاتا، پہاڑی علاقوں میں تعمیرات کی کوئی الگ پالیسیاں ہوتیں، تو دل ان تجاوزات گرانے پر خوش ہی ہوتا، لیکن کیا کروں ملک ریاض بھی غریبوں کو بے گھر کرکے خانہ بدوش بناتا ہے، تو ہماری حکومتیں بھی غریبوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ سارے آپریشن بے معنی لگتے ہیں اور زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے: ’’زہ مڑہ تاتہ گورہ اور ستا انصاف او انصرام تہ گورہ، ٹول گپ دے !‘‘ اگر ان علاقوں میں تجاوزات کو گرانا ہی ہے، تو ان متاثرین جنہیں اب ’’مجرم‘‘ سمجھا گیا ہے، کی آباد کاری کا متبادل انتظام کیا جائے اور جن لوگوں نے سرمایہ کاری کی ہے، اس سرمایے میں اِس نقصان کا ازالہ کیا جائے۔
حکومت ایساکرسکتی ہے، اگر کرنے کی خواہش اور ارادہ ہو، تو!
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔