تحصیل بریکوٹ ضلع سوات کا گیٹ وے ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی تحصیل ہے جو پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باشندے تعلیم یافتہ، شریف اور امن پسند ہیں۔ وہ قانون کا احترام کرنے میں پورے ضلع میں مشہور ہیں۔ ضلع سوات کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی دہشت گردی، سیلاب اور دوسری آفات کا شکار رہے ہیں۔ دہشت گردی کے شکار پہلے پولیس آفیسر شہید تاج ملوک کا تعلق بھی غالباً اس علاقے ہی سے تھا۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے تحصیلِ بریکوٹ قدرتی آفات کے علاوہ انسانی آفات سے بھی گزر رہا ہے۔ یہاں پر منشیات فروشی عام ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہی سے دوچار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مقامی پولیس کی ناک کے نیچے نہایت دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔ یہاں ہر قسم کی منشیات آسانی سے دست یاب ہیں۔ اگرچہ لنڈاکے اور کڑاکڑ چیک پوسٹوں پر سخت چیکنگ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود منشیات فراہم کرنے والے لوگ یہ انسانیت سوز مواد ان علاقوں میں پہنچا دیتے ہیں۔
تحصیل بریکوٹ کا مین کاروباری مرکز ’’بریکوٹ‘‘ ہے۔ یہاں پر تعینات چوکی انچارج ایک طویل عرصہ سے یہاں اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ اگر کبھی ان کا تبادلہ دوسری جگہ ہوجاتا ہے، تو ایک مختصر وقت کے بعد وہ یہاں دوبارہ تعینات ہوجاتے ہیں۔ اس اَمر کی تصدیق ان کے ریکارڈ سے بہ خوبی کی جاسکتی ہے۔ یہ افسر کبھی کبھار افسرانِ بالا کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ٹوپی ڈراما بھی رچا دیتے ہیں۔ عام طور پر وہ ملزمان کے خلاف انتہائی کمزور اور واقعہ کے خلاف مقدمات بناتے ہیں۔ اس وجہ سے ملزمان عدلیہ میں جاکر بری ہوجاتے ہیں۔ یوں ایک طرف عدلیہ کی بدنامی ہوتی ہے، تو دوسری طرف پراسیکوشن پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مقامی پولیس کا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تعلق اور میل جول بھی ہوتا ہے جس کے مظاہر اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر بھی نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری معلومات کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار عموماً ان کی رپورٹس حکامِ بالا کو بیچتے رہتے ہیں، لیکن معلوم نہیں سکیورٹی ایجنسیوں کے مابین رابطوں کا فقدان کیوں ہے۔ ورنہ سماج دشمن عناصر کے خلاف بروقت کارروائی ممکن ہوتی جو پولیس کی نیک نامی اور عوام کے مفاد کا باعث ہوتی۔
بریکوٹ میں ’’ڈی سی آر‘‘ اور قومی جرگہ اگرچہ مخالف فریقین کے درمیان صلح صفائی اور تنازعات کو ختم کرنے کے لیے جو خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ نہایت ہی قابل قدر اور مثبت نتائج کی حامل ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ا س کے ساتھ دوسری برائیوں کے خاتمہ میں بھی یہ جرگہ اپنا کردار ادا کرے، جس میں سرِفہرست علاقے میں منشیات فروشی کی روک تھام ہے۔
بریکوٹ کا ایک اہم مسئلہ ٹریفک کی بے قاعدگی اور پولیس کی غفلت بھی ہے۔ اگرچہ وہاں بازار میں ٹریفک پولیس کی اچھی خاصی تعداد موجود رہتی ہے، لیکن وہ ٹریفک کو باقاعدہ بنانے اور سڑک کو گاڑیوں کے ازدحام سے صاف کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بازار کے ہجوم سے باہر ناکہ لگا کر چالان کیا جائے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہوگی۔
اس کے علاوہ پولیس کے اہل کاروں کا رویہ بھی عوام کے ساتھ بہت ناشائستہ اور ہتک آمیز ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر مَیں سات ستمبر کو اپنے بچوں کو لے کر اپنی ہی گاڑی میں مینگورہ جا رہا تھا، تو بازار میں ایک ٹریفک سارجنٹ نے میرے ساتھ نہایت بدتمیزی کی۔ مینگورہ جاکر میں نے ڈی پی او صاحب کو باقاعدہ شکایتی درخواست دی اور اس سلسلے میں چند وکلا دوستوں سے ملاقات کی۔ ڈی پی او صاحب نہایت احترام اور اچھے اخلاق کے ساتھ ملے، اور میری پوری بات سن کر مذکورہ سارجنٹ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ واپس بریکوٹ آکر معلوم ہوا کہ درخواست میں جو نام میں نے لکھا تھا، وہ غلط تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام ٹریفک اہل کار اپنے نام کا بیج جیکٹ میں چھپا لیتے ہیں۔ مَیں نے فوری طور پر ڈی پی او صاحب کے آفس میں فون کرکے نام کی اصلاح کردی، لیکن مذکورہ ٹریفک پولیس اہل کار کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی بلکہ مذکورہ سارجنٹ اور دیگر پولیس اہل کاروں نے میرا مذاق بھی اڑایا جیسے مَیں نے ڈی پی او صاحب سے ملاقات کرکے کوئی بہت بڑا جرم کیا ہو۔
میرے خیال میں سوات کے پولیس اہل کاروں کے مجموعی رویے کی اصل وجہ شاید یہ ہے کہ ان میں پچاس فی صد سے زیادہ کا تعلق دوسرے اضلاع سے ہے۔ سوات کے مقامی لوگوں کا عمومی رویہ نہایت اچھا اور دوستانہ ہوتا ہے، جب کہ دیگر اضلاع کے اہل کاروں کا سوات سے کوئی جذباتی تعلق نہیں اور وہ محض اپنی نوکری کی خاطر سوات پولیس میں شامل ہیں۔ اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ وہ اپنی پالیسی تبدیل کردیں اور سوات پولیس میں دوسرے اضلاع کے لوگوں کو ملازمت نہ دیں اور دیگر اضلاع کے جو اہل کار سوات میں تعینات ہیں، ان کا یہاں سے تبادلہ کردیں۔ اس سے یقینا ایک مثبت تبدیلی آجائے گی اور پولیس کے خلاف شکایت کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔
مانیار گاؤں میں ایک چیک پوسٹ ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ اب جب کہ لنڈاکی، کڑاکڑ اور گورڑہ میں پولیس چیکنگ ہوتی ہے، تو مانیار میں ایک اور چیک پوسٹ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ایک اور عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ عام طور پر انٹری پوائنٹ پر ہی چیکنگ ہوتی ہے لیکن کڑاکڑ کے مقام پر ’’ایگزٹ پوائنٹ‘‘ پر بھی چیکنگ کی جاتی ہے، جب کہ بونیر کی طرف سے سوات آنے والی گاڑیوں کو چیک نہیں کیا جاتا، صرف جاتی ہوئی گاڑیوں کو چیک کیا جاتا ہے۔ یہ نرالی منطق سمجھ سے بالاتر ہے ۔
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکومت کی پالیسی کے مطابق پولیس کو سیاسی دباؤ سے مکمل طور پر آزاد کرایا جائے، تاکہ پولیس کے اہل کار کسی دباؤ کے بغیر ایمان داری اور فرض شناسی کے ساتھ نہ صرف امن و امان بحال رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں، بلکہ منشیات فروشی کی لعنت سے بھی معاشرے کو آزاد کرائیں۔ قانون کی عمل داری میں ہم سب نے پولیس کے ساتھ لڑنا نہیں بلکہ ان کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ سول سوسائٹی ہر قانونی اقدام پر پولیس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔