تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گذر جائے گی
ایک بڑا مضمون بعنوان ’’ہماری خوشیاں چھین لی گئی ہیں‘‘ لکھنے بیٹھا، تو خیال آیا کیوں دوستوں کو زحمت دوں! اسی لیے کچھ تاثرات پر اکتفا کرتا ہوں۔
ایک فلسفی نے مسرت اور نشاط پر بہت اچھی کتاب لکھی ہے۔ ان کے مطابق مسرت اور نشاط میں فرق وقت کا ہوتا ہے۔ جو خوشی مختصر ہو، اُسے نشاط کہا گیا اور جس خوشی کا دورانیہ طویل اور دائمی ہو وہ مسرت کہلاتی ہے۔ دونوں بظاہر اندورنی کیفیات ہیں، لیکن ان کا تعلق بیرون سے بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نشاط کا تعلق بیرون سے زیادہ ہے۔ اس لیے مختصر ہے، جب کہ مسرت کا تعلق اندرون سے ہوتا ہے، تو اسی وجہ سے دائمی یا طویل ہوسکتا ہے۔ جس طرح کوئی صدمہ عارضی ہوتا ہے، اسی طرح نشاط بھی عارضی ہے۔
مسرت کیوں ختم ہوجاتی ہے، یا یہ نشاط میں کیوں تبدیل ہوجاتی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ موت کا خوف، مقصد کا نہ ہونا، دوسروں سے موازنہ کرنا یا مقابلہ کرنا، اپنی رائے کے اظہار سے ڈرنا، خدا سے زیادہ خدا کے بندوں کا خوف، مسلسل مستقبل میں یا ماضی میں رہنا، اپنی ذات کو کوسنا، بہت اونچا سوچنا، اپنی کامیابیوں سے صرفِ نظر کرنا، طاقت کے حصول میں رہنا وغیرہ، چند بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد کا زمانہ یعنی جس دور میں وہ رہتا ہو، اور جن چیزوں سے اس کی روزانہ کی بنیاد پر مڈبھیڑ ہو، اور اسی طرح جس کلچر اور روایات میں وہ رہتا ہو، یہ سب ان اندرونی کیفیات کو جنم دینے میں بہت اہم ہوتے ہیں۔
جو وجوہات شخصی ہیں، ان پر قابو پانے کے لیے بڑے ریاض کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب اس ذہنی، جذباتی، نفسیاتی اور عقلی مشقت سے کوئی گذرجائے، تو اس کے لیے بیرونی عوامل سے نمٹنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔
ہمارا کلچر ایک آدم خور کلچر ہے ۔ آپ چونک گئے ہوں گے کہ آدم خور کلچر میں توانسان، انسان کو کھا جاتا ہے۔ مَیں گوشت پوست کی بات نہیں کررہا، مگر یہاں ہم واقعی ایک دوسرے کی شخصیت کو کھا جاتے ہیں، یا پھر چباڈالتے ہیں۔ ہمارا کلچر انتہا درجے کا ’’جج منٹل‘‘ ہے (اس کا اردو ترجمہ کیا کروں؟ مگر مراد یہ ہے کہ بس لوگ ایک دوسرے کی چال ڈھال، شکل و صورت، اُٹھنے بیٹھنے پر جاسوس کی طرح نظر رکھے ہوتے ہیں۔ ہر ایک خود کو مقدس یا اعلیٰ سمجھ کر دوسروں کے کردار، اخلاق، سیرت اور صورت پر کسی جج کی طرح فیصلہ صادر کر جاتا ہے، اور پھر اس کو معاشرے میں پھیلاتا بھی ہے )۔ یہیں سے معاشرے میں بے جا غیرت، تعصب، بغض، دشمنیاں اور رقابتیں جنم لیتی ہیں، اور یہی چیزیں شخصی و سماجی مسرت کو تباہ کردیتی ہیں۔
یہ رویے کلچر، مذہب، معیشت اور سیاست کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ ایسے کسی معاشرے میں انسان کی شخصیت نکھرتی نہیں بلکہ بگڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑا دانشور، عالم اور مفکر پیدا نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ ہمیشہ خوف کی ایک فضا قائم رہتی ہے اور یہ بندے کی صلاحیتیوں کو کھا جاتی ہے۔ اسی لیے یہ کلچر آدم خور ہے، بلکہ اس سے بھی برا کہ اس طرح کی آدم خوری ہمیشہ پنہاں رہتی ہے۔ اب ایسی کسی فضا کا مقابلہ کوئی پیغامبر یا اعلیٰ راہنما ہی کرسکتا ہے۔ اسی لیے پیغامبر کو عظیم مقام حاصل ہے، کیوں کہ وہ اپنے کلچر اور روایات کا باغی ہوتا ہے۔
مسرت کی راہ میں حائل دوسری بڑی رکاوٹ انسان کی زندگی میں کسی مقصد کا نہ ہونا ہے۔ مقصد کو عموماً بڑا مقصد لیا جاتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ دنیا کا نظام بدلنا مقصد ہے، تو اپنی اولاد کی دیکھ بھال بھی بڑا مقصد ہے۔ مطلب مقصد ہونا چاہیے۔ بڑے اور چھوٹے کے سابقے ضمنی ہیں۔ دنیا میں ہر انسان کا مقصد ہوتا ہے، لیکن ہم اسی موازنے اور تقابلے میں پڑ کر اپنے ہی مقصد کو کمتر یا سرے سے مقصد ہی نہیں گردانتے۔ اسی وجہ سے اضطراب رہتا ہے۔
یہی تقابل اور موازنہ ہی ہے کہ ہم ہمہ وقت نشاط چاہتے ہیں۔ جدیدیت کے موجودہ دور کو کسی فلسفی نے مائع جدیدیت کہا ہے۔ مراد اس سے یہ کہ پانی کی طرح شکل بدلتے اور بہتے اس دور کے انسان کی کیفیت بھی مائع کی طرح ہے۔ پل میں کچھ، تو پل میں کچھ۔ پل پل اس اضطراب میں ہم مبتلا ہیں اورہمہ وقت نشاط کی تلاش میں حالت، صورت، کیفیت اور ذہنیت بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار فیس بک پر اپنا سٹیٹس چیک کرنا یا نیوز فیڈ دیکھنا کہ کوئی نیا واقعہ یا پسند و ناپسند کا شمار ہاتھ آجائے کہ مضطرب نفس مطمئن ہو۔ ستم ظریفی یہ کہ اسی سکون کی تلاش میں مزید مضطرب ہوجاتے ہیں۔
یہی جدیدت ہے کہ جس نے ہم سے ہمارے اپنے آبائی؍ مقامی خوشی کے مواقع ’’کلونیل ازم‘‘ کی وجہ سے چھین لیے ہیں۔ اس بلا نے صدیوں سے ہمیں گھیر لیا ہے۔ ہمارا اپنا کلچر تباہ کرکے ہم پہ اپنا کوئی کلچر ترقی، معیشت یا مذہب کی صورت میں تھوپ دیا ہے۔ ہمارا اپنا کوئی تہوار نہیں رہا۔ دوسرے تہواروں میں اپنا رنگ بھرا، تو وہ ان کے نزدیک وحشی یا کفر ٹھہرے۔
مضمون لمبا ہوتا گیا۔ مختصر کیے دیتا ہوں۔ اس کلونیل ازم (نوآبادیت) اور گلوبلائزیشن (عالم گیریت) نے ہم سے خوشیاں چھین لی ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا ہی کولیں۔ یہ گلوبلائزیشن کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا دور آیا ہے کہ ہم اگر اس وبا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر مانیں یا نہ مانیں، خوف رہتا ہے۔اگر ہم اس کو وبا نہ مان کر بھی ایک دوسرے سے ملنے کی کوشش کریں، تو وہ مزا کہاں، وہ چاشنی کہاں، وہ حدت کہاں؟
اس وبا میں تو عید ایسی ہی ہوگئی کہ بقولِ شاعر
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
حل کیا ہے؟ میرے پاس نہیں۔ آپ کے اندر ہے حل۔ اپنی کامیابیوں کو گننا ہوگا۔ ہمیشہ خود کو کوسنا چھوڑنا ہوگا۔ اپنے لیے مقصد کا انتخاب کرنا ہے، اور اسی کو پانے کی مسلسل کوشش۔ نتیجے سے بے پروا ہوکر اس مسلسل عمل سے مزا لینا سیکھنا ہے۔ دوسروں کو اپنی طرح بنانے کی فکر اور کوشش چھوڑنی ہے۔ اپنی تقدیس اور غلاظت اپنے تک محدود رکھنی ہے۔ دوسروں میں نہیں ٹھونسنی۔ سوشل میڈیا کی بجائے پڑھنے میں زیادہ وقت گذارنا ہے۔ حال میں جینا ہے اور شعوری طور پر مستقبل کی تیاری کے عمل سے گذرنا ہے۔ دوسروں سے موازنہ اور تقابل کم سے کم کرنا ہے۔ دوسروں کو جج کرنا ضرور چھوڑنا ہے۔ نئی فکر سے گھبرانا نہیں۔ آدم خوری سے بچنا ہے۔ خوشی کے چھوٹے چھوٹے مواقع ڈھونڈنے ہیں، اور ان سے مزا لینا ہے۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔