’’ پاکستان نازک دورسے گذر رہا ہے۔‘‘، ’’فرقہ وارانہ اور لسانی سازشیں عروج پر ہیں۔‘‘، ’’ملک دشمن عناصر ریاست کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘، ’’صوبائیت زہرِ قاتل ہے۔‘‘
یہ سب اتنی بار لکھا چکا کہ اب تکرار سے الجھن ہونے لگی ہے۔ اس الجھن کا سبب من حیث القوم ہمارا رویہ، بے حسی و حالات کا ادارک نہ کرنا ہے۔ دل کی بات کہوں، تو اب پند و نصائح، وقت کا ضیاع لگتے ہیں۔ کرونا وبا پر بار بار ہر زوایہ سے اتنی بار لکھا جا چکا ہے کہ اب تو ہر حرف کرونا زدہ لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر جلد ہی کوئی سنجیدہ خبر سامنے نہیں آئی، تو کرونا جسم پر اثر کرے نہ کرے، البتہ دماغ متاثر ضرور ہوجائے گا۔
ہم جیسے لکھاریوں کو غیر جانب داری کا تمغا سجانے کا بہت شوق ہوتا ہے، یا اسے مجبوری سمجھ لیں۔ صحافتی اصولوں کے تحت کسی بھی جرنلسٹ کو اپنے غیر جانب دار رویے میں عداوت یا کسی مخصوص پلڑے میں جھکاؤ کا تاثر نہیں دینا چاہیے، لیکن جدید دورِ صحافت میں کماحقہ ایسا ناممکن ہے۔ بالخصوص جس قسم کے معروضی حالات چل رہے ہیں، ان میں قلم کو کبھی کبھار اِزار بند کے لیے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ کچھ بھی سمجھ لیں، لیکن قلم کو شترِ بے مہار کی طرح کھلا چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ کیوں کہ تلخ زمینی حقائق اس کی اجازت نہیں دیتے۔
ماہِ رمضان المباک میں اجتماعی عبادتوں، روایتی و مذہبی رنگ کو کرونا نے پھیکا کردیا۔ کرونا کیا ہے؟ بس انسانی و مذہبی رشتوں کو توڑنے کا نیا فلسفہ ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس موقع کو بھی چند عناصرنے فروعی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ حالاں کہ کرونا بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب سب پر یکساں حملہ ٓاور ہوا ہے۔ لیکن اسے مخصوص رنگ میں جس طرح ڈھالا گیا، وہ انتہائی دکھ کا باعث بنا۔
امریکہ نے وائرس کو عصبیت و قوم پرستی کی نفرت میں ’’چینی وائرس‘‘ کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، بلکہ تادمِ تحریر امریکی حکام کا زورِ بیان عالمی نفرت میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے۔
اسی طرح عظیم مشرقِ وسطیٰ میں کرونا پھیلاؤ کا سبب ایران کی جہاز ران کمپنی کو قرار دیا گیا اور اعداد و شمار سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مبینہ طور پر ایرانی جہاز ران ادارے کی وجہ سے کرونا وائرس عرب ممالک سمیت مشرق وسطیٰ میں ’’ایرانی وائرس‘‘ پھیلا۔
دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ اس کے اثرات بھارت میں ’’ہندو توا‘‘ کے زیر اثر آگئے اور’’مسلم وائرس‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو کرونا کے پھیلاؤ کا سبب قرار دے کر شدت پسندی کو بڑھاوا دیا گیا۔ بھارت نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ واویلا مچایا کہ خفیہ طور پر مقبوضہ کشمیر کے راستے ’’پاکستانی وائرس‘‘ بھیجا گیا ہے۔
ابھی عالمی پروپیگنڈوں سے دھیان ہٹا نہیں تھا کہ تفتان سے آنے والے زائرین کو لے کر فرقہ واریت کا نیا پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ وفاق کی سستی و لاپروائی اپنی جگہ، جو تفتان سے پاکستان میں وائرس کے اوّلین پھیلاؤ کا سبب بنی، لیکن افسوس ناک اَمر یہ تھا کہ ایران سے آنے والے زائرین کرونا منافرت کا شکار ہونے لگے۔ اس زہرِ قاتل کا رُخ موڑنے کی کوشش میں تبلیغی جماعت نشانہ بن گئی۔ فرقہ واریت کے اس نئے کھیل میں عمرہ زائرین کے ذریعے وبا کے پھیلاؤ کی ہوا چلا دی گئی۔
یہاں اس اَمر پر کسی کا دھیان نہیں گیاکہ زمینی راستوں کے علاوہ فضائی راستوں سے کرونا درآمد ہورہا ہے۔ کرونا کی علامات کو سمجھتے سمجھتے مقامی آبادیاں اس کا شکار ہوگئیں۔ اب اس کھیل کا نیا رُخ صوبائیت کی جانب گھوم چکا تھا۔ سندھ اور وفاق کے ساتھ دیگر صوبوں کا اپنا اپنا کرونا وائرس تھا۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں کرونا سندھی بھی بنا، پنجابی بھی، تو یہ پختون کے ساتھ بلوچی بھی قرار پایا۔ یہ عجب تماشا تھا۔ رہی سہی کسر وفاق اور صوبوں کے درمیان عدم مفاہمت نے پوری کردی۔
رمضان المبارک ایک ایسا مقدس مہینا ہے، جس میں ہر گناہگار بندہ اپنے رب کے سامنے خشوع و خضوع سے اپنی مغفرت اور پروردگار کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہے۔ سماجی فاصلوں کے نام پر مساجد میں اجتماعی عبادات پر جہاں پابندیاں عائد ہوئیں، تو ایک بزرگ نے جذبات سے مغلوب ہوکر مجھ سے کہا کہ اپنی زندگی میں یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ اللہ کے گھر میں اس طرح نشان لگا دیے جائیں کہ جیسے کرکٹ کھیلنے کے لیے فیلڈنگ سیٹ کی جا رہی ہو۔ انہوں نے امامِ مسجد پر بھی اپنا غصہ اتارا۔ اسے بزدلی کے طعنے دیے اور ایمان کی کمزوری قرار دیا، لیکن امام مسجد نے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ علما کی دی گئی گائیڈ لائنز اور اجتہادی فتویٰ سے روگردانی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ گھر میں عبادت کریں۔ مسجد کا مکمل ثواب ملنے کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ جس کے بعدطوہاً و کرہاً بزرگ خاموش ہوئے، اور گھر میں خود کو مقید کرلیا۔ علمائے کرام کے فیصلوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ علما کے ایک طبقہ نے مساجد میں پنج وقتہ نماز، صلوٰۃِ جمعہ و تروایح کے روایتی اہتمام کرنے کی رائے بھی دی، لیکن یہ مشورہ بھی ’’عید کے چاند‘‘ کی طرح متفقہ نہ ہوسکا۔
آہستہ آہستہ اس بابت تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا کہ 21 رمضان کو لاک ڈاؤن کی شکل کچھ اور ہوگی۔ پھر تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا میں فرقہ وارنہ مباحث کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا۔ بعد ازاں جس طرح حکومتی فیصلوں پر تنقید کی گئی، وہ خود حکومت کے دوہرے معیار کے باعث ہوا۔ طرفہ تماشا یہ کہ تاجر برداری 50 دنوں کے لاک ڈاؤن سے بے انتہا بے زار ہوچکی تھی، اور بار بار انتہائی اقدام کا کہا جارہا ہے۔ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ایس او پیز طے کیں اور پھر وہی ہوا جس کا اظہارہفتوں سے کیا جا رہا تھا۔ مارکیٹیں کھلیں، تو بھوک و اِفلاس کے شکار عوام اس طرح شاپنگ کے لیے ٹوٹ پڑے کہ جیسے خوراک اور علاج اور احتیاط سے زیادہ انہیں نئے کپڑوں، جوتوں وغیرہ کی زیادہ ضرورت تھی۔ صرف ابتدائی تین دنوں میں تین شہروں کراچی لاہور اور فیصل آباد میں 30 ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ ازدحام کے سبب بعض مارکیٹوں کو دوبارہ سیل کردیا گیا۔ سماجی فاصلوں کے فلسفے کی دھجیاں اڑ چکی تھیں، لیکن ڈبل سواری اور پبلک ٹرانسپورٹ پرنہ جانے کیوں پابندی عائد ہے۔ ایس او پیز کی خلاف وزری عوام کا قصور تھی، یا حکومتوں کی اپنی کچھ ترجیح،اس کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔
ناصح تجھے آتے نہیں آداب ِ نصیحت
ہر لفظ تیرا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔