امام غزالیؒ کی شخصیت اور ان کی فکر نے مذہب اور فلسفے دونوں کو بے انتہا متاثر کیا۔ امام غزالیؒ کا وہ عہد ہے کہ جب سلجوقی خاندان حکمران تھے اور عباسی خلیفہ ان کی نگرانی میں تھا۔ دوسری جانب مصر میں اسماعیلیوں کی فاطمی خلافت قائم ہوچکی تھی۔ انہوں نے 913ء میں جامعہ الاظہر کی بنیاد رکھی، تاکہ اسماعیلی فرقے کی تبلیغ کے لیے مبلغین کو تیار کیا جائے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نظام الملک توسی نے بغداد میں مدرسۂ نظامیہ کی بنیاد ڈالی جس کے صدر مدرس امام غزالیؒ تھے۔ چوں کہ ان کا تعلق اشعری فرقے سے تھا جو مذہبی معاملات میں بے انتہا راسخ العقیدہ تھا۔ لہٰذا امام غزالیؒ کی فکر اور ان کے مذہبی خیالات اس عہد سے متاثر ہوئے۔ اول انہوں نے اسلام میں فرقہ وارانہ تصادم اور مذہب کی نئی تفسیر و تاویل کو روکا اور یہ دلیل دی کہ ’’اب اجتہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ اسلام میں ہر چیز مکمل ہوچکی ہے۔ اگر اس میں نئے مذہبی خیالات آئے، تو ان کی وجہ سے جھگڑے اور فسادات ہوں گے۔‘‘ اس لیے انہوں نے اجتہاد کے تمام دروازے بند کردیے۔
لہٰذا امام غزالیؒ نے اسلامی معاشرے میں فلسفیانہ خیالات کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ فلسفہ، عقائد کو چیلنج کرکے شک و شبہ پیدا کرے گا۔ اس لیے فلسفے کو رد کرنا اور اس کے غلبے سے مذہب کو محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’تہامۃ الفلسفہ‘‘ نامی کتاب لکھی، جس میں اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کے مضر اثرات پر بحث کی۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 99 سے انتخاب)