آج کل تبلیغی حضرات کے حوالے سے ایک بحث چھڑ گئی ہے جس کی وجہ سے اصل مجرم بچ جاتے ہیں۔ درجِ ذیل نکتہ ایک دوست کے پوسٹ پر تبصرے کی صورت میں اٹھایا۔ سمجھا کہ یہاں آپ کے حضور بھی رکھ لوں۔ اُمید ہے آپ کو پسند آئے گا۔
عرض ہے کہ نہ تو تبلیغیوں کو پورا اسلام سمجھا جائے، کیوں کہ یہ اسلام کا صرف ایک گروہ ہے جو زیادہ تر ایک مسلک سے وابستہ ہے، اور نہ ان کو پاکستان میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ اس جماعت میں اکثریت سادہ ترین بزرگوں کی ہوتی ہے، اور ان کی تعداد دیہات سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان کو جو بات کہی جائے، وہ اسے من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے ملک بلکہ بیشتر ممالک میں یہ نسل ابھی تک زیادہ تر اَن پڑھ ہے کہ جن کا علمی انحصار زیادہ تر تذکروں، تکلم اور تقریرپر ہوتا ہے۔ ان کا واسطہ تحریر سے نہیں رہتا۔ یہاں چوں کہ بے حد غربت بھی ہے، جس کی وجہ سے خوف بھی پایا جاتا ہے اور یہ خوف عمر کی ایک حد تک پہنچ کر بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے ان سادہ لوح انسانوں کو کسی بھی طرف آسانی سے ہانکا جاسکتا ہے۔
وائرس کے اس پھیلاؤ کی بنیادی ذمہ دار موجودہ حکومت اور ریاست ہے کہ وہ ان لوگوں کو بروقت قائل کرسکی، نہ منع کرسکی، نہ یہ حکومت تفتان سے زائرین کو منع کرسکی اور نہ وہاں ایران میں ان کے پیچھے کوئی میڈیکل ٹیم ہی بھیج سکی۔ پھر جب وہ لوگ تفتان سے آئے، تو کسی کو ان کاریکارڈ تک معلوم نہیں۔
دراصل حکومت کو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایسی حکومت غیر مقبول فیصلے نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ہوتے ہوئے بھی خان صاحب مسلسل اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اصل میں وہ اِس وبائی صورتِ حال میں بھی اگلے الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں اور ان کو پتا ہے کہ ’’خالی خولی بیانیے‘‘ سے بیشتر پاکستانیوں کو دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ ایسا ہر حکومت کرتی ہے۔ اگر خان کی بجائے شریف کی حکومت بھی ہوتی، تو یہی صورتِ حال ہوتی۔
دوسری طرف عرب ملکوں میں بادشاہتیں ہیں۔ اس لیے کوئی ووٹ کا محتاج نہیں، اور نہکوئی اس کی فکر ہی کرتا ہے۔ اس لیے فیصلے سخت ہوتے ہیں۔ البتہ یہاں کی صورتِ حال مختلف ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت تو ہے، لیکن اس کے اصول کہیں نہیں اور نہ کسی کو شہری تعلیم (سِوک ایجوکیشن) ہی دی گئی۔
دوسری بات ریاست نے شروع دن سے ایسی پالیسی اپنائی ہے کہ ملکی سلامتی میں مذہب کا استعمال کرکے کئی مذہبی پیشواؤں اور افراد کو ریاست سے بھی بڑا بنایا ہے۔ حافظ سعید کی مثال سب کے سامنے ہے۔
مسئلہ تبلیغیوں کی وجہ سے نہیں۔ مسئلہ وہی ہے کہ ہماری ریاست بس چلتی ہے بے ہنگم و بے ترتیب۔ کوئی نظم ہے نہ پالیسی اور حکمت۔ یہ ریاست صرف مخالفین کے پیچھے منظم طریقے سے پڑسکتی ہے، باقی کوئی کام اس سے نہیں ہوتا۔ اس کے پاس کسی بھی گروہ کے بارے میں مکمل معلومات ہی نہیں ہوتیں۔ یہ بحث لاحاصل ہے کہ ’’وائرس شیعوں نے پھیلایا یا تبلیغیوں نے؟‘‘ مسئلہ اسی ریاست کے اندر ہے۔ مسئلہ اسی ووٹ کے آگے پیچھے ہے۔ اسی ووٹ کی وجہ سے لوگوں کو اَن پڑھ اور تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، تاکہ ریاست کی پالیسی کو کوئی چیلنج نہ کرسکے، اور جو پڑھے لکھے لوگ چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر مختلف فتوے اور لیبل لگا کر ان کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ اس پھیلاؤ کی بنیادی ذمہ دار ریاست اور ریاست کا موجودہ انتظام و انصرام ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔