اس کے لمبے بال کالج میں ہر کسی کو کھٹکتے تھے۔ پرنسپل صاحب نے اسے بار ہا اپنا حلیہ ٹھیک کرنے کی تلقین کی اور جب وہ نہ مانا، تو مجبوراً اُس کے کلاس میں داخلہ پر پابندی لگا دی۔ وہ اُترے ہوئے منھ کے ساتھ سارا دن کبھی کھیل کے میدان کو ناپتا اور کبھی کینٹین کے آس پاس گھومتا رہتا۔ اسے بس ایک بات کا قلق تھا کہ آج اس کی اردو کی کلاس ضائع ہوجائے گی۔ فزکس، کیمسٹری، بائیو، انگریزی اور دیگر مضامین کی کلاسوں سے اُسے کوئی غرض نہ تھی۔ اس کے بقول اُردو کے پروفیسر سے اسے ایک عجیب سی انسیت ہے۔ کیوں کہ پورے کالج میں وہی تو ہے جو اُسے اور کلاس کے دیگر طلبہ کو سنتا ہے۔
ہماری اکثر شکایت ہوتی ہے کہ بچے ہماری بات کیوں نہیں سنتے؟ وہ ہمیں وقعت کیوں نہیں دیتے؟ اس حوالہ سے میں کہوں گا کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ دراصل ہم اپنے بچوں کو سنتے ہیں اور نہ انہیں وقعت ہی دیتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر جس طرح میری اپنی ایک شخصیت ہے، ٹھیک اسی طرح بچے کی بھی ہے۔ جو باتیں میری طبعِ نازک پہ ناگوار گزرتی ہیں، وہ ایک آٹھ دس سالہ بچے کو بھی بری لگتی ہیں۔ یعنی کوئی آپ کی یا میری عزت نہ کرے یا کوئی ہماری توہین کرے، تو ہمارے دل پر کیا گزرے گی؟ بس اسی پوزیشن پہ آپ اپنے بچوں یا طلبہ کو رکھ لیں۔
آمدم برسر مطلب، جیسے ہی اردو کی کلاس شروع ہوتی ہے، تو وہ تمام تر پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر کلاس لینے چلا جاتا ہے۔ کسی طرح کالج کے فیزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر صاحب (پی ٹی آئی) جو کہ ایک ریٹائر فوجی ہوتے ہیں، کو پتا چل جاتا ہے اور وہ اس کے پیچھے پیچھے کلاس تک آ جاتے ہیں۔ کلاس کے اندر پروفیسر صاحب حسبِ معمول طلبہ کو اپنے تجربات کی روشنی میں زندگی کی حقیقت سمجھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے بقول: ’’ایک آدمی نے اپنی زندگی کے قیمتی تیس سال ادویہ کی دکان میں گزارے ہوتے ہیں۔ اسے کسی بھی ماہر معالج کی طرح علم ہوتا ہے کہ کون سی دوا کس مرض کے لئے کتنی مؤثر ہے؟ ایک بار ایک بزرگ مذکورہ ادویہ فروش کے پاس آکر ان سے ایک عجیب قسم کا سوال پوچھتا ہے کہ ’’کیوں بھئی، بتا سکتے ہو کہ کون سی دوا سب سے مؤثر ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی اولاً ادویہ فروش کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے اور ثانیاً بھنویں سکیڑ کر اپنے مخصوص انداز میں پوچھنے والے کو مخاطب کرکے کہتا ہے: ’’بزرگو، سب سے مؤثر دوا محبت ہے۔‘‘ جواب سن کر بادلِ نخواستہ بزرگ کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ہنستے ہنستے اسے کھانسی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ کھانسی سے چھٹکارا پانے کے بعد وہ ایک اور سوال کچھ یوں داغتا ہے: ’’فرض کرلیں دوا کام نہ کرے، تو……؟‘‘ ادویہ فروش اب کی بار بھی تھوڑے سے توقف کے ساتھ بڑے کمال کا جواب دیتا ہے: ’’بہت آسان حل ہے، ڈُوز ڈَبل کر دیں۔‘‘
پروفیسر کی بات جاری ہوتی ہے کہ باہر سے کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ پروفیسر صاحب دستک دینے والے کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے اور اندر وہی پی ٹی آئی صاحب (سبکدوش فوجی) آتے ہیں۔ آتے ہی دبنگ انداز میں کلاس سے بے دخل کئے گئے طالب علم کو اٹھاتے ہیں اور پروفیسر صاحب سے انہیں کلاس سے باہر لے جانے کی بات کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب وجہ پوچھتے ہیں، جس کے جواب میں طالب علم کے لمبے اور بے ترتیب بالوں کا رونا رویا جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب، پی ٹی آئی صاحب کو طالب علم کی ضمانت لینے اور آئندہ کالج کے قواعد و ضوابط پر پورا اترنے کی شرط پر کلاس میں رہنے کی درخواست کرتے ہیں۔ مگر پی ٹی آئی صاحب چوں کہ ایک سبکدوش فوجی ہوتے ہیں اور فوجیوں کی ذہنیت ’’آرڈر اِز آرڈر‘‘ والی ہوتی ہے۔ اس لئے پی ٹی آئی صاحب انہیں ایک شرط پر کلاس کے اندر رکھ چھوڑتے ہیں کہ اگر پرنسپل صاحب طالب علم کو کلاس کے اندر رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں، تو ان کی طرف سے کوئی روک نہیں ہوگی۔ پرفیسر صاحب اپنے مخصوص مکالمے ’’میں جس گھوڑے پہ داؤ لگاتا ہوں، اسے جیتنا ہی پڑتا ہے‘‘ کا سہارا لیتے ہیں جس کا پی ٹی آئی صاحب غیر محسوس انداز سے برا مان جاتے ہیں اور ساتھ ہی پروفیسر صاحب کو کہتے ہیں کہ ’’آپ چاہے کتنے ہی بڑا داؤ لگا لیں، یہ طالب علم نہیں سدھرنے والا۔ پچھلے ایک ہفتہ سے میں نے اس پر اپنے تمام حربے استعمال کئے ہیں، مگر بے سود۔‘‘ پروفیسر صاحب عافیت اسی میں جانتے ہیں کہ معاملہ کو طول نہ دیا جائے اور طالب علم کو جانے دیتے ہیں۔ طالب علم کے کلاس سے نکلتے وقت پروفیسر صاحب اُس کی پیٹھ تھپکاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’بیٹا، میں جس گھوڑے پہ داؤ لگاتا ہوں……‘‘ طالب علم اس کی بات کاٹ کر کہتا ہے: ’’جانتا ہوں جناب! اُسے جیتنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
اگلی ہی صبح معجزاتی طور پر نہ صرف وہ ہٹ دھرم طالب علم بال کاٹ کر آیا ہوا ہوتا ہے بلکہ اس کی یونیفارم نکھری، شوز پالش اور ناخن کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متاثر کن ’’لُک‘‘ دینے کے لئے اس نے اچھی سی خوشبو بھی لگائی ہوئی ہوتی ہے۔
آئیے اب اس حقیقی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں۔ جائزہ سے پہلے اک چھوٹی سی گزارش کرنا چاہوں گا کہ اگر آپ استاد ہیں، تو آپ یہ ٹوٹی پھوٹی تحریر سرے سے دوبارہ پڑھ لیں۔ ہماری اکثر شکایت رہتی ہے کہ طلبہ ہماری نہیں سنتے۔ تحریر میں وجہ عرض کرچکا ہوں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمارے پاس انہیں سننے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ ایک استاد اپنے طلبہ اور والدین بچوں سے تبھی اپنی مرضی کا کام لے سکیں گے، جب وہ انہیں سنیں گے اور ان پر اعتماد کریں گے۔ آپ کسی بھی بچے پر ایک بار اعتماد کرکے تو دیکھیں۔ پھر وہ آپ کی لاج رکھنے میں جان لڑائے گا۔ کم از کم ایک بار یہ کلیہ ’’ایپلائی‘‘ کرکے دیکھ لیں۔