برصغیر ہندوستان میں 1924ء میں اس وقت تبدیلی آئی، جب یہاں فرقہ پرستی کے جذبات عروج پر پہنچے۔ اس وقت مسلمان مؤرخین نے محمد بن قاسم، محمودِ غزنوی اور محمد غوری کو بطورِ فاتح پیش کیا جنہوں نے ہندوؤں کو شکستیں دیں۔ یہ ایک سیاسی ردِ عمل تھا۔ ورنہ اس سے پہلے مغل عہد تک محمد بن قاسم، محمودِ غزنوی اور غوری کو تاریخوں میں بطورِ ہیرو پیش نہیں کیا گیا۔
تاریخ نویسی میں اس وقت بھی تبدیلی آئی جب سندھ میں قوم پرستی کی تحریک ابھری۔ جی ایم سید نے اپنے ایک کتابچے (سندھ جو سورما) میں محمد بن قاسم کو امیہ سامراج کا ایک نمائندہ قرار دیا ہے، جس نے توسیعِ سلطنت کے لیے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ تاریخ کی اس تشریح سے عربوں کی فتح اسلامی نہیں بلکہ سیاسی اور سیکولر تھی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ سندھ میں اسلام کیوں کر پھیلا؟ سندھ کا معاشرہ چوں کہ قبائلی تھا، اس لیے عربوں کے اقتدار میں آنے کے بعد جب مختلف قبائل کو تحفظ کی ضرورت ہوئی، اور ان کے سردار نے اسلام قبول کرلیا، تو اس کے ساتھ ہی اس کے قبیلے والوں نے بھی اپنے سردار کی پیروی کی۔ لہٰذا یہاں اسلام کسی تبلیغ کے ذریعے سے نہیں مقبول اور نہ ہی ریاست کی جانب سے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مصر میں فاطمی سلطنت قائم ہوئی، تو ان کے زمانے میں اسماعیلی مشنری سندھ میں آئے اور انہوں نے یہاں اپنے فرقے کی تبلیغ کرکے کچھ طبقوں کو اسماعیلی بنایا۔ مثلاً سندھ کا آخری عرب خاندان جس نے اپنا اقتدار قائم کیا، وہ ہیاری تھے، جن کا دارالسلطنت منصورہ تھا۔ محمودِ غزنوی نے نہ صرف ہیاری سلطنت کا خاتمہ کیا بلکہ ملتان میں قائم شدہ اسماعیلی حکومت کو شکست دے کر ان کے اقتدار کو ختم کیا۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 19 اور 20 سے انتخاب)