تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ یہ کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔ تاریخ میں بڑے بڑے طرم خان گمنام لکھے جاتے ہیں، اور عام سے لوگ تاریخ میں ہیرو کا درجہ پا جاتے ہیں۔ تاریخ کے پاس اپنے معیارات ہیں۔ وہ ہمارے کہنے سے نہ کسی کا کردار لکھتی ہے، نہ یہ فیصلہ ہی کرتی ہے کہ کون کس کو پسند ہے اور کسے نا پسند! آپ عارضی طور پر کسی کی شان میں قصیدے لکھتے ہیں۔ قصیدہ گو خود بھی بن جاتے ہیں اور لفاظی کے تمام ہنر آزماتے ہیں۔ اس امید پہ کہ آپ کی قصیدہ گوئی کو تاریخ بھی یاد رکھے گی، اور آپ کا کسی کے حق میں رطب اللسان ہونا آپ کی صفت بن جائے گا۔ لیکن تاریخ ایسی قصیدہ گوئی آپ کے منھ پہ دے مارتی ہے۔ جب کہ آپ کسی شخص کی جتنی مرضی کردار کشی کر لیں، اس کی ذات کے بخیے ادھیڑ لیں، جیسے چاہیں اس کو ذلیل و رسوا کر لیں، لیکن اگر تاریخ کی مرضی ہو، تو وہ اس شخص کو ہیرو بنا کے آپ کی باقیات کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے، اور پاکستان میں بھی تاریخ ایسا ہی کرتی ہے۔
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک دیکھیے کہ شخصیات کی ظاہری نمود و نمائش سے مبرا ہو کے تاریخ دو دھاری تلوار بن جاتی ہے۔ بھٹو آج بھی زندہ ہے، اور کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب جیسا لیڈر پاکستان کو میسر نہیں ہوا۔ بے باک انداز، جان دار لہجہ اور لفظوں کا موقع پر بہترین استعمال، لیکن تاریخ جب لکھنے بیٹھی، تو اس نے لکھا کہ کیسے اکثریتی جماعت کو اقتدار نہیں سونپا گیا، رائے موجود ہے کہ حالات بہت پہلے سے ہموار کیے جا رہے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ ہموار کیے جا رہے تھے، لیکن اس کو عروج دینے والوں کو بھی تاریخ کبھی نہیں بھولتی اور ایسا ہی ہوا۔ ایوب خان نے 65ء کی جنگ فتح کرنے کا تمغا اپنے سینے پہ سجایا۔ دو ڈیم بنا کے دیے، لیکن تاریخ جب ذکر کرنے کو آئی، تو ایک ڈکٹیٹر سے آگے ذکر نہیں کیا۔ ڈیم اور جنگ کے قصے کہانیاں بھی تاریخ رقم کرتی رہی۔
شریعت کا نفاذ کرنے والے ضیاء الحق ہوں یا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے مشرف سب تاریخ کی نظر میں محفوظ ہے۔ ’’بھٹو کی بیٹی آئی ہے‘‘ کا نعرہ لگا ہو یا ملک کو ایشیائی طاقت بنانے کا دعویٰ کرنے والے نواز شریف، سب کی اچھائیاں برائیاں ان کے مشیران کی قصیدہ گوئی سے بالکل ہٹ کے تاریخ لکھتی رہی اور تاریخ کا حصہ مذکورہ شخصیات بنتی رہیں۔ ظلم یہ ہے کہ تاریخ اپنا ماضی رقم کرنے کے لیے تاریخ دانوں کی محتاج نہیں۔ ہم تصور کر لیتے ہیں کہ تاریخ دان ہی تاریخ لکھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ تاریخ خود اپنے آپ کو لکھتی ہے۔
قارئین، کرونا وائرس نے پوری دنیا کو جکڑ لیا۔ ایک ملک سے بات 150 ممالک تک پہنچ گئی۔ جہاں دنیا سکون سے بیٹھی تھی کہ چین کو مسائل ہیں، وہ چین دوبارہ کھڑا ہوگیا اور دنیا گھٹنوں کے بل ہوگئی۔ چین جیسی اقتصادی طاقت کو جہاں کرونا وائرس نے ناکوں چنے چبوا دیے، وہاں ایران جیسا پابندیوں کا شکار ملک بھی شکار بن گیا۔ اٹلی اور برطانیہ جیسے یورپی ملک نہیں بچے، تو افغانستان اور انڈیا جیسے ایشیائی ملک بھی شکار ہو چکے ہیں۔ ہر طرف بھاگ دوڑ جاری ہے۔ تحقیق کرنے والے علاج کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔ علاج کرنے والے علاج کر رہے ہیں، لیکن تاریخ یہاں بھی اپنا وار کر رہی ہے۔
وفاق اور صوبہ سندھ کی محاذ آرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہاں مخالف سیاسی جماعتیں ہیں، چناں چہ محاذ آرائی یقینی ہے، لیکن کرونا وائرس آنے کے بعد سے سندھ حکومت نے واویلا مچائے رکھا کہ وفاق تعاون نہیں کر رہا، اور وقت نے ثابت کیا کہ وفاق کی تھوڑی سی سستی کی وجہ سے ائیرپورٹ سے لوگ نکلتے رہے۔ شہروں میں آتے رہے اور کچھوے کی رفتار سے مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی، لیکن وفاق نے پھر بھی شائد اس لیے معاملات کو سنجیدہ نہیں لیا کہ بات سندھ تک تھی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جس مراد علی شاہ کو ہم وراثتی حکمران کا طعنہ دیتے چلے آ رہے ہیں، وہ اس مشکل میں ابھر کر سامنے آیا۔ سندھ حکومت نے کنٹرول کرنا شروع کیا۔ ساتھ وفاق سے گلہ شکوہ جاری رہا، لیکن حالات کنٹرول میں رہے۔ دو ماہ سے سنتے آئے ہیں کہ تفتان بارڈر پہ زائرین کو خیمہ بستی کے قرنطینہ میں رکھا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم نے چین سے تو پاکستانیوں کو ملک میں نہیں بلایا، لیکن اطلاعات آتی رہیں کہ ایران جیسے شدید وائرس کے شکار ملک سے لوگ پاکستان آتے رہے۔ تفتان پہ قرنطینہ بنا۔ سہولیات ناکافی تھیں۔ المیے کی نشان دہی کی جاتی رہی، مگر وفاق کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ تفتان بارڈر پہ سکروٹنی سخت کی گئی، نہ قرنطینہ بہتر بنانے کی طرف توجہ ہی دی گئی۔ تفتان بارڈر سے سندھ سے تعلق رکھنے والے زائرین جب سندھ پہنچائے گئے تو 14 دن کے قرنطینہ کے بعد بھی ان میں سے پچاس فیصد وائرس کا شکار ثابت ہوئے۔ اب ہر طرف شور مچا۔ وفاق کی بدحواسی سامنے آئی۔ پتا چلا کہ تفتان میں تو چیک کرنے یا ٹیسٹ کرنے کا کوئی نظام ہی موجود نہ تھا۔ مشینیں پرانی تھیں یا اور کچھ تھا۔ اب بھاگم بھاگ وہاں انتظامات کیے جا رہے ہیں، لیکن فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ زائرین تو شکار ہوچکے اور وائرس لیے ہوئے مریض صوبوں میں بھی پہنچ چکے۔ یک دم کچھوے کی رفتار سے وائرس کے پھیلاؤ نے خرگوش کی رفتار لی۔ آخری اطلاعات کے مطابق پانچ سو کے قریب مریض، اور دو تین اموات کی خبریں ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ تنقید بر موقع و محل نہیں، لیکن عقل کے اندھے فیصلہ سازوں سے کوئی پوچھے کہ اگر تفتان میں سہولیات نہیں تھیں، تو لوگوں کو چودہ دن تک قید جیسی حالت میں رکھا کیوں گیا؟ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی گردان سننے والے کانوں سے عرض اتنی سی ہے کہ ’’صاحب! جب سب اچھا نہیں تھا، تو کیوں کبوتر کی طرح آپ نے آنکھیں موند لی تھیں؟ کیا آپ کی عقل کے کسی گوشے میں دنیا کا واویلا نہیں آیا؟ آپ نے ایران میں گرتی لاشیں نہیں دیکھیں؟ چین جیسی اقتصادی طاقت کو آپ نے چاروں شانے چت نہیں دیکھا؟ دنیا تو پھر بھی کنٹرول کرلے شائد۔ آپ کے ہاں تو وائرس کا ٹیسٹ ہزاروں روپے کا ہو رہا ہے سب دعوؤں کے باوجود، تو جس کو علامات ہیں بھی، کیا وہ لیب میں جائے گا رضاکارانہ طور پر؟ آپ مریضوں سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیسٹ کروائیں، لیکن آپ کیوں رضاکارانہ طور پر خلوصِ نیت نہیں دکھاتے اور اس ملک پر رحم نہیں کرتے۔ کبھی تو کوئی ایسا فیصلہ بھی کر دیجیے کہ کسی ہنگامی آفت میں عوام آپ کے گن گائیں؟
مراد علی شاہ کا کردار مثبت طور پر ابھرا کہ وہ با اختیار ہیں۔ پنجاب میں اللہ نہ کرے ویسے حالات پیدا ہوئے، تو اوپننگ بیٹسمین کے پاس کتنے اختیارات ہیں؟ آپ سب جانتے ہیں۔ آپ نے کمزور پیادہ آگے کیا کہ بہتی گنگا میں کوئی اور ہاتھ نہ دھوئے، لیکن افتاد ایسی آن پڑی کہ لوگ ماضی کے ’’چوروں‘‘ کو یاد کرنے لگے ہیں کہ وہ ہی بہتر تھے۔ مراد علی شاہ جہاں اس رفتار سے ابھرے وہاں پنجاب میں صورت حال کیا ہے؟ لکھا جاتا رہا، بولا جاتا رہا کہ وسائل کا رُخ بلوچستان کی طرف کیجیے کہ المیہ سر پہ ہے۔ آپ کے کان پہ جوں تک نہ رینگی اور بروقت فیصلہ نہ ہوسکا۔ اب وبا ایک طرح سے پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔
آپ بے فکر رہیے۔ آپ کا کردار مثبت ہے، تو ہماری توصیف آپ کے لیے۔ آپ کا کردار منفی ہے، تو ہماری تنقید آپ پر ہوگی۔ لیکن ہم ہوتے کون ہیں توصیف یا تنقید کرنے والے؟ آپ اگر درست اور ہم غلط، تو ہمارے الفاظ گمنام اور آپ کا عمل یاد رہے گا۔ لیکن اگر حقیقت میں آپ کا کردار سستی کا شکار ہونے کی وجہ سے منفی ہو گیا، اور آپ کے بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں یہ وبا پھیل گئی، تو تاریخ آپ کے ساتھ پورا پورا انصاف کرے گی۔ آپ کو ایسے یاد رکھے گی کہ آپ کی آنے والی نسلیں سر جھکائے ملیں گی۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔