’’متوفی عبد الرحمان کو خدا بخشے (آمین) اب تو جسدِ خاکی بھی خاک میں مل گئی ہوگی اُس کی۔ 1960ء کاآخری سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اس بیس سالہ نوجوان نے چرخے کی چرر چرر، کھڈی کی کھٹ کھٹ اور تاروں کے تانے بانے بننے کے بیگار سے بیزار ہوکر باغی بننے میں عافیت سمجھی۔ دو اپنے اور دو پرائے کرکے وادئی سوات کی بستی سلام پورسے فرار ہوئے۔فرار کے وقت اللہ تعالیٰ کی ’’کُلہم کائنات‘‘ میں فراری کو ودیعت کی گئی مال و متاع کی وہ گٹھڑی جو اُس کے دائیں کندھے سے لٹک رہی تھی، کئی پیوند لگے دو جوڑے کپڑوں اور ایک گئی گزری پرانی چادر تک محیط تھی ۔ اُس کے دسترس میں اور کچھ مزید تھا، تو وہ حکومتِ پاکستان کی ’’قَضَا‘‘، وازرتِ خزانہ کی ’’رضا‘‘ اور بینک دولتِ پاکستان کے ’’ایما‘‘ پر جاری ہوئے ایک ایک روپے کے وہ نو عددکرنسی نوٹ تھے، جن کو پیش کرنے پر سٹیٹ بینک پر واجب ہو جاتا ہے کہ اتنی ہی مالیت کی ’’دولت‘‘ حاملِ ہٰذا کو بلاچوں وچرا ادا کرے۔ کرنسی کے وہ نوٹ مسَّمی کی قمیص، واسکٹ اور درونی بنیان کی درجن بھر جیبوں میں کون سی جیب کے کونے کھدرے میں محفوظ پڑے ہوئے تھے۔ و ہ ڈھونڈنا بھی گویا امریکہ دریافت کرنے کے مترادف تھا۔ بہرحال، پشاور کچھ دیکھا بھالا شہر تھا، جیسے تیسے پہنچ گیا اور وہاں سے مزید دور بھاگنے کے لیے ریل کے ڈبے میں ٹکٹ لیے بغیر گھس پڑا۔ کہیں واش روم میں چھپ کر، کہیں سیٹ کے نیچے یا اوپر لیٹ کر اور چہرہ مبارک ڈھانپ کر، کہیں سامان میں گھس کراورکبوتر کی طرح آنکھیں موند کر آگے پیش رفت کرتا رہا چلتا رہا۔ حضرتِ آدمؑ کو قادرِ مطلق کی دی گئی ہدایات کی حکم عدولی کرنے پر بہشتِ بریں سے بے دخل کرکے اِس دارِ فانی کے سوکھے پھوکے بے آب ودانہ ریگستان میں اپنی حوا بی بی سمیت نقل مکانی کا سندیسہ دیا گیا، ایسے ہی ٹکٹ نہ کٹوانے کے جرم میں ریلوے کے ناخداؤں نے بے حال وبے نیاز عبدالرحمان کو دھکیل دھکیل کرکسی ایسے انجانے پھاٹک کے قریب پھینک کر دَم لیا، جہاں گوروں کے دور کا کوئی ڈمی ہی سہی وہ سائن بورڈ بھی ڈسپلے پر نہیں تھا، جس پر لکھا ہوتا ہے: ’’رجسٹر شکایات پھاٹک والے کے پاس ہے!‘‘ ہوتا تو وہ اپنی شدید بے حرمتی کے ضمن میں کوئی رپٹ درج کروانے کا شور شرابا کرکے اور کچھ نہیں، تو خود کو دلاسہ تو دے دیتا۔ خیر جی، پھر بھی، اُس نے پھاٹک تک زندہ پہنچنے پرربِ ذوالجلال کا شکریہ ادا کرنے کے لیے دو رکعت نوافل ادا کیے اور ازاں بعد ارادہ کیا کہ غربت کی مصیبت سے مزید دور، دوڑنے اور بعض انسانی درندوں کے ہتھے چڑھنے کی بجائے یہی کہیں نزدیکی شہرمیں کوئی کام کرکے اِس کا ڈٹ کرمقابلہ کیوں نہ کیا جائے۔ سواُس نے اپنی ’’منصوبہ بندی‘‘ کی روشنی میں ایک نام نہاد سا ’’پتنوس‘‘ بنا کراُس کے دونوں کونوں میں پٹا ڈال کر اُسے چنے، مونگ پھلی وغیرہ سے بھروا کر اور گردن سے لٹکا کر وہی آس پاس چلتی پھرتی دُکان داری کا ڈول ڈالا۔ رات کو کسی بنچ یا ڈھابے پرڈھاواں ڈھول ہو کرنیند کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کا فن سیکھا۔ اُس کے اور فیض کے دُکھ کے لیولز کتنے ایک جیسے تھے، سوچیں:
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنااگر ایک بار ہوتا
ایک عرصے تک موصوف کی یہی سرگرمیاں جوں کی توں جاری وساری رہیں، حتیٰ کہ حالات نے تب پلٹا کھایا، جب وہ نزدیکی ٹیکسٹائل ملز میں کام کرنے والے پختونوں کے ہتھے چڑھ گیا، جنہوں نے وہی پرنوکری بھی دلائی اور چنا چاٹ والا کام بھی ’’سائیڈ بزنس‘‘ کے طور پر دوسرے شفٹ میں چلتا رہا، جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے زینے چڑھتا رہا۔’’پتنوس شاپنگ‘‘ سے بات پہنچی اپنی چھابڑی تک، چھابڑی سے ہتھ ریڑھی تک، وہیں سے لپک کر ڈھابے، دُکان، پھر پلتے پھولتے اور مزید پلتے پھولتے ایک ڈیسنٹ ریسٹورنٹ تک۔چشمِ فلک نے دیکھا کہ جہدِ ِمسلسل کے ایک طویل دور سے گزر کروہ وسیع کاروبار کا مالک اور ایک بڑے ٹبّر پر مشتمل خاندان کا بابا بن بیٹھا، جو اُس عرصہ میں اُسی معاش و معاشرت میں رچ بس گیا۔ اُس دھرتی کو اپنی جنم بھومی سمجھتا ہوا رشتے اور تعلق جوڑتا ہوا عبدالرحمان نصف صدی تک،جی ہاں! پوری نصف صدی یعنی پچاس سال تک اپنے کام میں اتنا مصروف رہا کہ اُس کے گھٹنے ایک دوسرے سے بے زار ہو کر باہمی طور پر ٹکرانے لگے، کنپٹیوں میں اَکھڑپن اور کھچاؤ آیا، لیکن اُس بندے نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کمر کے جوڑں نے ڈھیلے اور ہڈیوں نے ٹیڑھے ہوکر کب نکالا، لیکن اُس نے کوئی پروا نہ کی، یوں نڈھال ہوتے ہوتے بستر پر ڈھیرہو ا۔
زندگی تو ہی مختصر ہوجا
شبِ غم مختصر نہیں ہوتی
آخرِکار 80 سال کی عمر میں دارِفانی سے رحلت کی اور وصیت کے مطابق وہی پر دفنایا گیا، اہل وعیال کے لیے ایک جیتی جاگتی، زندہ جاوید داستان چھوڑ کر۔
معاف فرمائیں جی، یہ کہانی ہے توبڑی لمبی، تاہم کچھ واقعات کے ساتھ خیانت کرکے، کچھ کہانی میں قطع و برید کرکے اور کچھ اختصار سے کام لے کر ایک سرسری سی سمری پیش کرنے کی جسارت کی۔ ہم ہیں تین کا ٹولہ، جو کمر بستہ ہو کر گھروں سے نکلا ہے ایک سفر پر اوررواں دواں ہے اُوکاڑہ، سانگھڑ، ٹھٹھہ اور حیدرآباد سے ہوتے ہوئے کراچی شہرمیں خیمہ زن ہونے کی خاطر۔ سفر میں کہانیاں سنانے کی گنجائش کہاں! لیکن سوال یہ ہے کہ چلتے چلتے ایک مرحوم کی کہانی میں کیسے اور کیوں اُلجھ گئے ؟ بتاتے ہیں، بتاتے ہیں! لیکن اچانک گاڑی کے بریک لگنے، دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں سنتے ہیں، تو خیالوں کا ربط خود بخود ٹوٹ جاتا ہے، بتائے بغیر۔ دماغ جاگنے کی گھنٹی مارتا ہے، للکارے بغیر۔ آنکھیں متعلقہ حلقوں میں اپنے کیمرے ’’آن‘‘ کرکے ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں،ہم سے پوچھے بغیر۔ یہ جو دماغ، آنکھ، کان اور ناک شاک وغیرہ جیسے باڈی پارٹس ہیں ناں، یہ قبضہ تو جمائے بیٹھے ہیں ہماری برہنہ ’’فرنٹ ویو‘‘ پر بڑے اہتمام کے ساتھ اپنا اپناڈسپلے کرکے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اپنے معمولات کے معاملے میں یہ مالک اپنی مرضی کے ہیں، کتنے بے بس ہیں یہ خدا کے ‘’’بادست وپا‘‘ بندے، بیچ اِس صورتِ حال کے ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ نشان دہی ہم نے کی، انصاف کا بول آپ ہی بالا کیجیے۔
ہاں، تو گاڑی سے اُتر کر جیسے ہی دیدوں کو اِدھر اُدھر دوڑنے کی درخواست کرتے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہم تو اُوکاڑہ پہنچ گئے ہیں، جہاں اس وقت بادل، بارش اور ژالہ باری کی اجارہ داری ہے،دُھند کا اورٹھنڈ کا پہرہ ہے۔ ہے تو شام، لیکن شام کے دُھندلکے عیاں نہیں، کیوں کہ بجلی کی روشنیاں تاریکیوں کی سترپوشی کرنے کے لیے ’’ریڈ اِلرٹ‘‘ پر ہیں۔ بارش نے بریک لی اور ہم نے ہمت کرکے بازار میں گھومنے پھرنے کی حامی بھری۔ لو جی، صاف ستھرے کھلے ڈھلے سڑک ہیں۔ گویا ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کے حساب سے یہاں کے باسیوں کا ایمان زیادہ پکا اور مصدقہ ہے ہمارے مقابلے میں۔ وسیع و فراخ گلی کوچے اورخصوصی ترکیب و ترتیب سے لگائے گئے اینٹوں کے پختہ فرش ہیں۔ ’’بر سرِ فٹ پاتھ‘‘ لکڑی کی چھابڑیوں میں پتوں کے بنے فرش پر جالی دار کپڑے تلے تازہ بہ تازہ پنیر و خالص مکھن، ملائی اور دہی بڑے سلیقے سے پڑے لوگوں کے ’’آتشِ بھوک‘‘ کی کیفیت کا امتحان لے رہے ہیں۔ رنگ برنگے گل دستے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشتے ہوئے برائے فروخت پڑے ہیں۔ شاپنگ کرنے اور نہ کرنے والی ہر دو اصناف کی اورگاہک اور دوکان دار کی آپس میں ’’تو تو میں میں‘‘ کا ایک بحر طلاطم ہے جو مچا ہوا ہے۔ مدھم اور خاموشی سے چلتی ہوئی ہلکی ٹریفک ہے۔ہلکی ٹریفک سے مراد ’’موٹر سائیکلز‘‘ سمجھیں اور اُس کے چلانے والے کے عین پیچھے ایک مستحکم و پُرآسائش خاتون اور انواع و اقسام کی اولاد بیٹھی سمجھیں۔ جوق در جوق زنانیوں کے علاوہ کئی باذوق وبے ذوق نرینے بھی اِس بازار ی ہلچل کا عملاًحصہ ہیں، لیکن ہمارے سفر کے ساتھیوں کونرینے تو دور کی بات اپنے پاس والے ساتھی حتیٰ کہ ہم بھی دکھائی نہیں دیتے، سِوائے آس پاس کے ریسٹورنٹس میں سجے سجائے ذائقہ دار کھانوں کے اور بہ درجۂ اَتم میک اَپ زدہ خواتین کے ’’یہ جا وہ جا‘‘ کے۔ ایک طرف معدے کی بھوک، ایک طرف نظر کی بھوک، لیکن اِس میں ساتھیوں کا کیا قصور؟ یہ تو نظر نظرکا معاملہ ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اوکاڑہ کی خواتین پختون خواتین کی طرح بہت زیادہ باوضو و پرہیزگار او رپردہ دار تو نہیں، تاہم شکل و صورت کی صورتِ حال سے بڑی جاذبِ نظر اور فرینڈلی اور چال ڈھال کی صورتِ حال سے بڑی پھنسنے والی موڈ میں لگتی ہیں ، تاہم :
حسن کو احتیاط لازم ہے
ہر نظر پارسا نہیں ہوتی
(جاری ہے)
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔