جاڑے کا طویل موسم اپنے کہر آلود اور ٹھٹھرتے دن رات قریباً پورے کرچکا تھا۔ سوات کی دھرتی میں بہار کی کو نپلیں سر اُٹھانے اور اپنی مہکار بکھیرنے کے لیے انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ لیکن سوندھی خوشبو بکھیرنے والی مٹی میں بارود کی بورچی بسی تھی۔ لوگوں کے چہروں پر پژمردگی چھائی ہوئی تھی۔ کیوں کہ آئے دن کسی نہ کسی کی سر کٹی لاش چوراہوں میں اُلٹی آویزاں نظر آتی تھی تو کہیں ٹارگٹ کلنگ سے کسی معصوم اور بے گناہ شہری کا سینہ چھلنی کردیا گیا ہوتا تھا۔ رہی سہی کسر خودکش بمبار پوری کردیتا تھا۔ آج سے ٹھیک آٹھ نو سال پہلے 29 فروری کی وہ شام کسے بھولی ہوگی جب ڈی ایس پی جاوید اقبال کو شدت پسندوں نے اپنے مذموم عزائم کا نشانہ بناکر شہید کردیا تھا۔ ان کا یہی قصور تھا کہ وہ محکمہ پولیس میں ملازمت کرتے تھے۔ ان میں کچھ لیاقت، قابلیت اور استعداد تھی جبھی تو ڈی ایس پی کے عہدہ تک ترقی پائی تھی۔ لیکن شدت پسندوں کو کسی کی قابلیت، لیاقت اور استعداد کا کیا خیال تھا۔ انھوں نے تو ریاست اور ریاستی اداروں کو مفلوج کرنا تھا، اسکول اڑانے تھے، پل تباہ کرنے تھے، ڈسپنسریوں کو تہ و بالا کرنا تھا، جو وہ کررہے تھے۔ لیکن یہ کیا کہ مرحوم کی نمازِ جنازہ ہونے والی تھی کہ ایک جنت کے طالب نے خود کو کیا اُڑایا ایسے ایسے جگر گوشوں کے چیتھڑے ہوا میں بکھیر دیئے جوکئیوں کی آنکھ کے تارے تھے، کئیوں کے سہاگ تھے، کئیوں کے ابو، بھیا اور چاچو تھے۔ اس خودکش حملہ میں مبینہ طورپر پچاس سے زائد بے گناہ شہری شہید جب کہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جن میں زیادہ تر عمر بھر کے لیے معذور ہوچکے ہیں۔ شہید ہونے والوں کے کتنے ہی یتیم بچے آج اپنے باپ کے لیے ترستے ہوں گے، بیوائیں شکوہ کرتی ہوں گی کہ اے اللہ! تو نے مجھے ہی امتحان کے لیے چنا تھا؟ اشک بار بہنیں دیواروں کا سہارا لے کر روتی ہوں گی، غم زدہ بھائی اپنے سہارے کو ترستے ہوں گے اور دل فگار بوڑھے ماں باپ اپنے جھریوں بھرے چہروں اور آنکھوں سے کس طرح آنسو ضبط کرتے ہوں گے؟ نہ جانے کس پالیسی ساز کھوپڑی نے یہ مشورہ دیا ہوگا کہ حاجی بابا نامی بازار کے بیچ متصل سکول میں عشا کے وقت ایسے حالات میں بینڈ باجے کی سلامی کے بعد نماز جنازہ پڑھی جائے جب ہر طرف طالبان دندناتے پھرتے تھے۔ حکومتی رٹ نامی چیز تو برائے نام باقی تھی۔ شہید ہونے والے سبھی معززین شہر تھے۔ سبھی کو جانیں پیاری تھیں لیکن جس موت پر آج بھی پورا شہر سوگوار ہے وہ موت یوسی ملوک آباد مینگورہ کے نائب ناظم حبیب اللہ (شہید ) کی تھی۔
حبیب اللہ شہید کی لمبی تڑنگی بانکی جوانی اور لمبی لمبی کنڈل مونچھیں آج بھی یاد آتی ہیں تو دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے جوانی کی بہاروں کے دن ہی کب دیکھے تھے۔ پینتیس برس کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ وہ پہلی ہی مرتبہ تو سیاست میں آئے تھے اور بھاری اکثریت سے جیت کر اہل مینگورہ کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے۔ آپ حد سے زیادہ شریف، ملن سار اور تابع دار تھے۔ آپ کی شرافت، خوش اخلاقی اور ہنس مکھی ہی کا جادو تھا کہ ہر کوئی آپ کو اپنا دوست، ہم درد اور خیر خواہ سمجھتا تھا۔ لیکن اس چراغ پر آسمانی بجلی گری اور یہ بہت جلد بجھ گیا۔ بہ قول شاعر
سنا ہے برق گرنے کے لیے بھی
کوئی دل کش ٹھکانہ ڈھونڈتی ہے
حبیب اللہ (شہید) میرے شاگرد تھے۔ جب وہ اوپن یونی ورسٹی سے بی اے کررہے تھے تو میں ان کا ٹیوٹر تھا۔ وہ جب بھی مجھ سے کہیں ملتا تو اُٹھ کر میرا استقبال کرتا اور لمبا قد ہونے کی بنا پر قدرے جھک کر مجھے دونوں ہاتھوں سے سیلوٹ کرتا اور پھر گلے لگا لیتا پھر فخریہ انداز میں لوگوں سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہتا کہ ’’یہ میرے استاد ہیں۔‘‘ وہ بات بات پر قہقہہ لگایا کرتا تھا۔ جب تک زندہ رہا لوگوں کو ہنساتا رہا۔ لیکن جب مرا تو ہمیشہ کے لیے لوگوں کو روتا چھوڑ کر خود منوں مٹی تلے دب گیا۔
آہ، حبیب اللہ! تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن تیرے دوستوں نے تیری یاد میں، گلیوں اور چوراہوں میں تیری بڑی بڑی تصاویر لگا رکھی ہیں۔ تیری بڑی بڑی آنکھوں اور بل کھاتی مونچھوں کی چھوٹی چھوٹی تصاویر تو ہر دکان کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ تیری بہنیں دیوار کا سہارا لے کر بین کرتی رہتی ہیں۔ تیرے پھول سے دو بچے اپنی ماں سے ایک عرصہ تک پوچھتے رہے کہ ’’پاپا کب آئیں گے……؟‘‘
اے میرے دوست، میرے شاگرد! اب نہ طالب ہے نہ طالبان۔ تیرے شہر کی رونقیں پھر سے بحال ہوچکی ہیں۔ پھر جاڑا ختم ہونے والا ہے۔ پھر سے بہار آنے والی ہے۔ سب کچھ وہی ہے۔ بس اک تیری کمی ہے۔ بقول شاعر
آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیرے میں نگاہوں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے صرف تیری کمی ہے