ہمارے ایک رشتہ دار نوجوان نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے زرِ کثیر خرچ کرکے بی ایس الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری لی، لیکن ان کے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑی جب پاکستان میں اس نے دیکھا کہ یہاں پر نہ کسی ادارے میں عملی پریکٹس کے لیے کوئی اپرنٹس شپ کا کوئی پروگرام ہے اور نہ متعلقہ اداروں میں اس ڈگری سے متعلق دیگر کوئی چھوٹی موٹی اور ادنیٰ قسم کی ملازمت کی گنجائش ہی ہے۔ چند ماہ قبل واپڈا میں بہت بڑی تعداد میں اسامیاں مشتہر کی گئیں۔ درخواست رجسٹریشن کے لیے باقاعدہ فیس مقرر کی گئی۔ ہمارے اس عزیز نے سب انجینئر سے لے کر لائن مین اور میٹر ریڈر تک کی پوسٹوں کے لیے اپلائی کیا، لیکن آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ وہ اسامیاں ہنوز خالی ہیں، یا راتوں رات خفیہ طور پر رشوت و سفارش کے ذریعے پر کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود رجسٹریشن فیس جو ہزاروں کیا بلکہ لاکھوں ایسے بے روزگار نوجوانوں سے لاکھوں کروڑوں روپوں کی شکل میں وصول کی گئی، جن کے بارے میں پتا نہیں کہ وہ ناقابلِ واپسی تھی، یا قابلِ واپسی؟ ان طور طریقوں سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہرِ ناپرساں ہے، جس نے جس طریقے سے بھی عوام کو لوٹا۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ اور نہ کوئی جواب دہ۔ اب ہمارا یہ عزیز ایک پرائیوٹ پبلک سکول میں معلمی کے فرائض انجام دے رہا ہے، اور منصوبہ بنا رہا ہے کہ پچیس تیس لاکھ روپے کے عوض کسی ترقی یافتہ ملک میں حصولِ روز گار کے لیے باہر جانے میں کامیاب ہو جائے، لیکن اب تک وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوا۔
اس سے چند سال پہلے ذمہ دار حضرات یہ رونا روتے تھے کہ تمام کالجز اور یونیورسٹیز آرٹس کے مضمون میں بی اے، ایم اے پاس نوجوانوں کے کھیپ کے کھیپ ہر سال فارغ کر رہی ہیں، جن کے لیے ٹیکنکل اداروں میں جا بسنے کی گنجائش نہیں۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر تعلیم ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب کی کوششوں اور محنت سے نظامِ تعلیم تقریباً جزوی طور پر تبدیل ہوا۔ بہت سارے ٹیکنیکل تعلیم دینے والے ادارے پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ اداروں نے تو ایک بہت بڑی انڈسٹری اور کاروبار کی شکل اختیار کی۔ تعلیم کا نظام تبدیل ہوا۔ اچھے ذہن اور فکر والے ٹیلنٹڈ اور صاحبِ حیثیت نوجوان ٹیکنیکل اور پروفیشنل اداروں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ کمزور ذہن اور پسماندہ پس منظر رکھنے والے عام طالب علم عام تعلیمی اداروں میں ایم اے اسلامیات، ایم اے پشتو وغیرہ کرنے لگے۔ اب جب نتائج نکلنا شروع ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں پروفیشنل اور ٹیکنیکل اداروں سے ڈگریاں لے کر نوجوان نکلنے لگے، تو معلوم ہواکہ ملک میں کوئی بنیادی صنعتی ڈھانچا اور صنعتی ادارے موجود ہی نہیں۔جہاں پر ان نو فارغ شدہ غیر تجربہ کار اور عملا ًپریکٹیکل تعلیم سے نا بلد طلبہ کو اپرنٹس شپ کی سہولت مہیا کی جائے۔ پھر اس نئی تشکیل شدہ پالیسی کے تحت پروفیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم کی بھی بہت ساری مختلف نوعیت کی مہارتیں ہیں۔ مثلاً ایم بی اے، ایم کام اور دیگر اس قسم کے مضامین جو مالیاتی اداروں سے متعلق ہیں، ان کے لیے بھی ملکی مالیاتی اداروں اور بینکوں میں گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ سول، الیکٹریکل، میکینکل اور کیمیکل ڈگریوں کے حامل طلبہ کے لیے تو سرے سے ملک میں کوئی صنعتی ڈھانچا ہی موجود نہیں۔ نتیجے میں فرسٹریشن اور حوصلہ شکنی کو فروغ ملا۔ ذہنی بیماریوں کی شکل میں نوجوانوں میں خود کشیوں میں اضافہ ہوا۔ ایسے والدین جنہوں نے بچے کھچے اثاثے بیچ کر اور مختلف طریقوں سے بہتر مستقبل کے لیے وسائل قرض ادھار کی شکل میں جمع کیے تھے، ان کی مایوسی، دل گرفتگی اور حزن و یاس کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب دوسرا نتیجہ بھی دیکھ لیجیے۔
ان میں سے ایسے نوجوان جو ذہین اور باصلاحیت ہیں، وہ باہر کے ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی قابلیت و صلاحیت سے فیض یاب کرتے ہیں۔ ان پر خرچ کیے گئے ہمارے قومی وسائل ضائع ہوگئے۔
اس طرح دوسری قسم کے کم ذہین اور صلاحیت کے لحاظ سے کمزور نوجوان پچیس تیس لاکھ روپے کے عوض ایجنٹوں کے ذریعے دیگر ملکوں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوں کہ پاکستان میں حاصل شدہ ڈگریوں کی بین الاقوامی دنیا میں کوئی عزت و وقعت نہیں، اور نہ ان کمزور اور نامکمل تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے یہ ممکن ہی ہے کہ اپنی ڈگریوں کو وہاں کے ٹیسٹ اور امتحانات کے ذریعے کوالیفائی کراسکیں۔ نتیجے میں سٹوڈنٹ ویزے کے آپشن کو استعمال کرکے جب یہ وہاں پہنچتے ہیں، تو متعلقہ یونیورسٹی میں جانے کے بجائے اپنی جان پہچان کے پہلے سے موجود لوگوں کے پاس جاکر غیر قانونی طور پر اپنے لیے روزگار تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح ایک طویل عرصہ اس پریشانی میں مبتلا رہتے ہوئے قانونی شہریت کے حصول کے لیے گزارتے ہیں۔ یہ ہمارے حکمرانوں، اہلِ فکر و نظر اور محکمۂ تعلیم کے ذمہ داروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا اس طرح مستقل طور پر ہمارا ذہین و فطین طبقہ اپنے ملک کی ترقی اور خدمت کے بجائے غیروں کے لیے تیار و تربیت یافتہ کارکنوں کی شکل میں ان کی قومی ترقی میں ممدو و معاون ثابت ہوگا؟ اور کیا اس بات کی گنجائش نہیں کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو اپنی قومی ضرورتوں کے مطابق تشکیل دیں؟ کیا یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ پرانا فرسودہ نظامِ تعلیم جو لارڈ میکالے نے اپنی قومی بالادستی اور مقبوضات پر گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے بہت پہلے تشکیل دیا تھا۔ آج 72 سال سے ہم اس نظامِ تعلیم کے نتائج بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔
یہ بات ایک طرف تو انتہائی مضحکہ خیز ہے اور دوسری طرف اپنی قومی، ملی پہچان اور شناخت کے لحاظ شرمناک ہے کہ ہم نے اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر ایک نامانوس غیر ملکی زبان انگریزی کو ذریعۂ تعلیم قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہماری نسل کی صلاحیت و قابلیت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ ایک طر ف ہم اردو کو اپنی قومی اور باہمی رابطے کی زبان قرار دیتے ہیں، اور دوسری طرف حکومتی سرکاری اداروں اور نظامِ تعلیم میں انگریز آقاؤں کی زبان انگریزی کو اس بودی کمزور دلیل کی بنیاد پر مسلط کر دیا ہے کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے اور بین الاقوامی طور پر بولی جانے والی زبان ہے، لیکن ان عقل و خرد اور قومی شرم و حیا سے عاری حکمران طبقے کو یہ حقیقت نظر نہیں آتی کہ چین، جاپان، فرانس، جرمنی اور صرف برطانیہ کو چھوڑ کر تمام یورپی ممالک نے کیا انگریزی زبان کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی میں یہ ترقی کی ہے؟
آج چین اور جاپان اپنی اپنی قومی زبان کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمانوں پر اُڑ رہے ہیں۔
فرانس کا اپنی قومی زبان کے بارے میں عصبیت اور تعصب کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی قومی زبان فرنچ میں کسی دوسری زبان کا ایک لفظ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
ہماری قوم تقریباً تین سو سال سے اُردو اور 1441 سال سے عربی زبان اور رسم الخط سے مانوس ہے۔ ہماری زبان اردو میں اتنی وسعت، الفاظ و معانی کی اتنی فراخی اور فصاحت و بلاغت کی اتنی صلاحیت ہے کہ ہر مضمون اور ہر فن کے لیے اس میں الفاظ و مترادفات موجود ہیں۔ پبلک سرکاری سکولوں میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی جماعت سے انگریزی پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ یہاں کے پی میں بھی حکمرانوں کی یہی خواہش اور آرزو ہے کہ پہلی جماعت سے انگریزی پڑھنا بچوں کے لیے لازمی قرار دیا جائے، اور پرائیویٹ سکولوں میں تو پری نرسری میں چار سال کے بچوں کو شروع ہی سے انگریزی پڑھانے کا رواج ہے۔
انگریزی زبان میں بچوں اور نوجوانوں کی صلاحیت و قابلیت کا یہ حال ہے کہ اس پر یہ لطیفہ صادق آتا ہے کہ ایک صاحب جو امریکہ یا برطانیہ سے چھٹی پر وطن تشریف لائے تھے۔ جب اپنے بی اے پاس بیٹے سے انگریزی میں بات کرنے کی کوشش کی، تو بیٹے کو انگریزی بولنے میں پیدل پایا۔ ان کو بہت غصہ آیا اور کہا کہ نالائق انگلینڈ میں تو چھوٹے چھوٹے بچے فرفر انگریزی بولتے ہیں، اور تم ہو کہ اتنی تعلیم کے باوجود انگریزی میں انتہائی نالائق ہو۔
چوں کہ انگریزی زبان ہمارے قومی مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ اس کا رسم الخط، اس کے حروف، زبان کی ادائیگی، لب و لہجے میں فرق سب ہمارے لیے نامانو س اور مشکل ہے۔ اس وجہ سے اس زبان کے رواج سے ہمارے اچھے خاصے ذہین نوجوان بھی مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، لیکن چوں کہ اس زبان پر رولنگ کلاس کے اقتدار، بالادستی اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کا دار و مدار ہے۔ اس وجہ سے تمام قوم کی مخالفت کے علی الرغم اس کو زبردستی قوم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ہر زبان کے ساتھ اس کا ماحول، کلچر، روایات اور طرزِ بود و باش بھی ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے نئی نسل کے ذہن و فکر کو مغربی طرزِ زندگی اور روایات سے متاثر کیا جاتا ہے۔ مثلاً غالبا پانچویں جماعت کی انگریزی کتاب میں ایک گھرانے کی گھریلو زندگی کی کہانی چلتی ہے، جو شوہر بیوی اور ایک بیٹے اور ایک بیٹی پر مشتمل ہے۔ ان کے گھر میں کتا بھی ہے، اور پالتو بلی بھی۔ وہ سالگرہ بھی مناتے ہیں اور سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے ’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘‘ بھی گاتے ہیں۔ ان کے معمولات میں اگر گرجے کا ذکر نہیں، تو مسجد اور نماز کا ذکر بھی نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ زبان دانی کے ساتھ ایک پورا معاشرتی نظام بھی نئی نسل کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ آپ نے اگر ’’ایچی سن کالج‘‘ کا ذرا غور سے مشاہدہ کیا ہے، تو اس تعلیمی ادارے میں ہمیں ایک خاص حکمران رولنگ کلاس کو حکمرانی کے رعب داب، طور طریقے، سیاسی چالیں اور اَپر کلاس کے معاشرتی آداب و روایات سکھائے جاتے ہیں۔ آپ نے ایچی سن کالج کے طلبہ کا یونیفارم دیکھا ہوگا۔ طرے دار شملہ اور جاگیردارانہ انداز کا لباس اور رعب داب، جس سے شاہانہ اور حکمرانہ کروفر جھلکتا ہے۔
ہماری بیوروکریسی کی قابلیت و صلاحیت کا معراج بہترین انگریزی میں لکھا ہوا ڈرافٹ ہے، جو بیوروکریٹ جتنی فیور اور حقیقی برٹش یا امریکن لہجے میں انگلش بولتا ہے، اس کو نابغہ روزگار تصور کیا جاتا ہے، اور جو ہر نئے ادارے اور محکمے کے لیے نیا انگریزی نام تجویز کرتا ہے، چاہے وہ عوام کالانعام کے سمجھ میں آئے یا نہ۔ اس پر واہ واہ اور شاباش کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ کیا 72 سال سے ہم نے انگریزی نظام تعلیم کے ذریعے کوئی ترقی کی؟ کوئی کارنامہ انجام دیا؟ میرے خیال میں تو اس کا جواب بالکل نفی میں ہے۔
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نیوکلیئر ایٹی پروگرا م کی عملی تربیت ہالینڈ اور جرمنی میں حاصل کی، اور اسی طرح اگر ہم غلامانہ فرسودہ اندازِ فکر و نظر کو خیر آباد کہہ کر اپنے نظامِ تعلیم کو اپنی قومی زبان اردو میں رائج کریں، سرکاری اور دفتری زبان اردو کو قرار دیں، تو ہمارا قومی تشخص بحال ہو جائے گا۔ ہمارا ذہنی و فکری تصور وسیع ہو جائے گا، اور ہماری قومی صلاحیت و قابلیت کو فروغ ملے گا، لیکن اس کے لیے اس خاص متوسط طبقے کو بروئے کار لانا ہوگا، جو اب بھی اپنے قومی تشخص، اپنی تاریخ و روایات اور دین و ایمان کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسی درمیانی متوسط طبقے کو آگے آنا ہوگا۔ اپنا قومی کردار ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان اپنی آبادی، قومی وسائل اور محلِ وقوع کے لحاظ سے ایک اہم اور منفرد ملک ہے۔ اگر ہماری ترقی و تعمیر کی سمت درست ہوگئی، اور ہم نے اپنے دین و ایمان اور ضابطۂ حیات کے مطابق اپنا رخ کعبۃ اللہ کی طرف پھیر دیا، غیروں کی نقالی چھوڑ دی، قومی ذہانت اور ٹیلنٹ کو بروئے کار لایا، تو پھر پاکستان کو ایک اہم بین الاقوامی طاقت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہماری ترقی کا راز ہمارے عقیدے اور دینِ اسلام کے ضابطۂ حیات میں ہے۔
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
لیکن اگر ہم اسی طرح غیروں کی بھونڈی نقالی اور اپنے دشمنوں کے منصوبے کے مطابق ان کے قدم بقدم چلتے رہے، تو ترقی و تعمیر تو درکنار ہماری وجود اور بقا کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ہم اپنے علانیہ دشمنوں کے ذہن سے سوچتے ہیں۔ ہمارے تمام مسائل کی اصل وجہ اور جڑ وہ طبقہ ہے، جو ہم پر حکمران ہے، جو باری باری اس قوم پر مسلط ہوتا ہے۔ اگر اس طبقے سے نجات کی کوئی قومی تحریک سامنے نہیں آتی، تو اس طبقے سے ہماری گلو خلاصی مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اب 72 سال بعد ظلم و جبر اور استحصال و تسلط کے نظام کے خلاف رد عمل کا آغاز فطری ہے، لیکن سنجیدہ اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص طبقات کے لیے ضروری ہے کہ اس رد عمل کو حدود کے اندر رکھ کر بے قابو او ر بے لگام ہونے نہ دیا جائے۔
………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔